کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 13
ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو پھر وہی اسے دے دو۔[1] لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنی ذرع ۴۸۰ درھم کے عوض حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کوبیچ دی جس کی رقم حضرت علی رضی اللہ عنہ نے لاکراللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رقم سے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے لیے سامان تیار کیا۔[2] ان حدیثوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی میں جو سامان دیا تھا وہ مہر کی رقم سے ہی خریداگیا تھا نہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طرف سے جہیز کے طور پر دیا ۔ ہاں البتہ شریعتِ اسلامیہ نے اتنی گنجائش ضرور رکھی ہے کہ اگر لڑکی کے والدین یاسرپرست لڑکی یا لڑکے کو بطورِ تحفہ کوئی چیز دینا چاہیں تو ضرور دے سکتے ہیں اسمیں کوئی مضائقہ نہیں ہوگا۔جسطرح سے ام المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنی بیٹی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کی شادی کے موقع پر انھیں ایک ہار تحفہ میں دیا تھا۔ایسے ہی اگر لڑکا ضرورت مند ہوتو اسکی مدد کی جاسکتی ہے چاہے وہ رقم کی شکل میں ہو یا سامان ہی کی شکل میں کیوں نہ ہو۔کیونکہ یہ اسے بطورِ اعانت دیا جارہا ہے نہ کہ جہیز کی شکل میں۔ لیکن آج کل جس طرح نکاح سے قبل جہیز کے لیے مطالبات ہوتے ہیں اور پھر نکاح کے موقع پر جس اہتمام کے ساتھ اس کی نمائش ہوتی ہے اس کے شرعاً حرام ہونے میں کوئی شک نہیں۔واللّٰہ اعلم بالصواب۔ عبدالعلیم عبدالرحیم فانی،الخبر(سعودی عرب)
[1] نسائی:نکاح۷۶،ابوداؤد:۲۱۲۵-۲۱۲۷،مسند احمد:۱؍۸۰ [2] دیکھییے:ابن کثیر ،البدایۃ والنھایۃ۔