کتاب: جہیز جوڑے کی رسم - صفحہ 12
مسلمانوں نے بھی اسے اپنا کر شادی(نکاح) کا ایک حصہ بنادیا ہے ۔حالانکہ یہ فعل اسلامی تعلیمات کے سراسر خلاف ہے اور اس پر عمل کرنا گناہ ہے۔یاد رکھیں کہ جہیز کا مطالبہ کرنا یا پھر یہ سمجھنا کہ جہیز دینا ضروری ہے،یہ اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ شریعتِ اسلامیہ نے شادی بیاہ کے تمام تراخراجات اور اسکے بعد بیوی بچوں کی تمام تر ذمہ داری ،ان کی تمام ضروریات اور ان کے مکمل اخراجات کا بوجھ صرف مرد پر ڈالا ہے نہ کہ عورت پر۔جیسا کہ خود اللہ پاک کا ارشاد قرآنِ مجید میں اسطرح آیا ہے: { اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلَٰی بَعْضٍ وَبِمَا أَنْفَقُوْا مِنْ أَمْوَالِہِمْ} (سورۂ نسآء:۳۴) ’’مرد عورتوں پر حاکم ہے اس وجہ سے کہ اللہ پاک نے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنا مال خرچ کیا ہے۔‘‘ جو حضرات جہیز کو جائز قرار دیتے ہیں ان کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے چنانچہ ابن ماجہ میں ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئے اُس وقت وہ دونوں ایک سفید اونی چادر میں لپٹے ہوئے تھے یہ چادر، ایک تکیہ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی اور ایک مشکیزہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بطورِ جہیز دیا تھا۔ اُنھیں معلوم ہونا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جو کچھ بھی دیا تھا وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے ادا کی گئی مہر کی رقم سے تھا جسکا ذکر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث سے ملتا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو میں نے کہا:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فاطمہ رضی اللہ عنہا کی میرے ساتھ رخصتی کردیجئے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اُسے کیا دوگے؟انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ وہ تمہاری حطمی ذرع کہاں ہے؟انہوں نے عرض کیا :وہ تو میرے پاس ہی