کتاب: جادو کا علاج قرآن وسنت کی روشنی میں - صفحہ 54
اس طریقے میں درج ذیل باتیں نمایاں ہیں:
(۱) جنات تاریک کمروں کو پسند کرتے ہیں ۔
(۲) جنوں کو ایسی دھونی کی بو سے غذا ملتی ہے جس پر بسم اللہ نہ پڑھی گئی ہو۔
(۳) جنات ناپاکی کو پسند کرتے ہیں او رشیطان ناپاک لوگوں کے بہت قریب ہوتے ہیں ۔
دوسرا طریقہ
جادوگر کوئی پرندہ (فاختہ وغیرہ) یا کوئی جانور (مرغی وغیرہ) جنوں کی بتائی گئی خاص شکل و صورت کے مطابق منگواتا ہے جس کا رنگ غالبا سیاہ ہوتا ہے ،کیونکہ جن سیاہ رنگ کو دوسرے رنگوں پر فوقیت دیتے ہیں ۔ پھر وہ اسے ’بسم اللہ‘ پڑھے بغیر ذبح کردیتا ہے اور اس کا خون مریض کے جسم پر ملتا ہے، پھر اسے کھنڈرات میں یا کنوؤں میں یا غیر آباد جگہوں میں پھینک دیتا ہے جو کہ عموماً جنوں کے گھر ہوتے ہیں ، اور اسے ان میں پھینکتے ہوئے بھی ’بسم اللہ‘ نہیں پڑھتا، پھر اپنے گھر چلا جاتاہے اور شرکیہ تعویذات پڑھنے کے بعد وہ جو چاہتا ہے جنوں کو حکم جاری کردیتا ہے۔
مندرجہ طریقے میں دو طرح سے شرک پایا جاتاہے:
(۱) تمام علماء کا اتفاق ہے کہ جنوں کے لئے جانور ذبح کرنا حرام بلکہ شرک ہے ،کیونکہ یہ ذبح لغیراللہ ہے، چنانچہ ایسے جانور کا گوشت کھانا بھی کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں ہے چہ جائیکہ وہ اسے غیر اللہ کے لئے ذبح کرے ، جبکہ جاہل لوگ ایساناپاک فعل ہر زمانے میں اور ہر جگہ پر کرتے رہتے ہیں ۔
یحییٰ بن یحییٰ کہتے ہیں کہ مجھے وہب نے بیان کیا ہے کہ ایک خلیفۂ وقت کے دور میں ایک چشمہ دریافت ہوا، ا س نے اسے عام لوگوں کے لئے کھول دینے کا ارادہ کیا اور اس پر جنوں کے لئے جانور ذبح کیا تاکہ وہ اس کا پانی بہت گہرائی تک نہ پہنچا دیں ، پھر اس کا گوشت لوگوں کو کھلا دیا، یہ بات امام ابن شہاب زہری تک پہنچی تو وہ فرمانے لگے:
’’خبردار! ذبح شدہ جانور حرام ہے اور خلیفہ ٔ وقت نے لوگوں کو حرام کھلایا ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس جانور کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے جسے جنوں کے لئے ذبح کیا گیا ہو۔‘‘[1]
[1] آکام المرجان، ص۷۸.