کتاب: جادو کا علاج قرآن وسنت کی روشنی میں - صفحہ 48
(۴) چند کام شعبدہ بازی اور برق رفتاری سے کرکے لوگوں کی آنکھوں پر جادو کرنا، چنانچہ ایک ماہر شعبدہ باز ایک عمل کرکے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرلیتا ہے، او رجب لوگ مکمل طور پر اپنی نظریں اس عمل پر ٹکائے ہوئے ہوتے ہیں ،تو وہ اچانک اور انتہائی تیز رفتاری کے ساتھ ایک اور عمل کرتا ہے جس کی لوگوں کو ہرگز توقع نہیں ہوتی، سو وہ حیران رہ جاتے ہیں ، اور لوگوں کی اسی حیرانی میں وہ اپنا کام کرجاتاہے۔
(۵) وہ عجیب و غریب چیزیں جو بعض آلات کی فٹنگ سے سامنے آتی ہیں ، مثلاً وہ بگل جو ایک گھڑ سوار کے ہاتھ میں ہوتا ہے اور وقفے وقفے سے خود بخود بجتا رہتا ہے، اور اسی طرح ٹائم پیس وغیرہ ہیں جو وقت ِمقررہ پر خود بخود بجنے لگ جاتے ہیں ۔ امام رازی لکھتے ہیں کہ اس کو درحقیقت جادو میں شمار نہیں کرنا چاہئے، کیونکہ اس کا ایک خاص طریقۂ کار ہوتا ہے اور جو بھی اسے معلوم کر لیتا ہے اس کے بعد وہ ایسی چیزوں کو ایجاد کرسکتا ہے۔ اور ہمارا خیال بھی یہی ہے کہ سائنسی ترقی کے بعد اس زمانے میں تو یہ چیزیں عام ہوگئی ہیں ، لہٰذا اسے جادو کا حصہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔
(۶) بعض دوائیوں کے خواص سے مدد لیکر عجیب و غریب بیماریوں کے علاج دریافت کرنا۔
(۷) دل کی کمزوری، اور یہ اس وقت ہوتی ہے جب کوئی جادو گر یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اسے ’’اسم اعظم‘‘ معلوم ہے، جنات ا س کی اطاعت کرتے اور اس کی ہر بات پر عمل کرتے ہیں ۔ اس کا یہ دعویٰ جب کمزور دل والا انسان سنتا ہے تو اسے درست تسلیم کرلیتا ہے اور خواہ مخواہ اس سے ڈرنے لگ جاتا ہے، اسی حالت میں جادوگر جو چاہتا ہے اسے کر گزرنے کی پوزیشن میں آجاتا ہے۔
(۸) چغل خوری کرکے لوگوں میں نفرت کے جذبات بھڑکا دینا اور ان میں سے کچھ کو اپنے قریب کر لینا او ران سے اپنے مطلب کا کام نکالنا۔
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ان آٹھ اقسام کو ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’ ان اقسام میں سے بہت ساری قسموں کو امام رازی رحمہ اللہ نے فن جادو میں اس لئے شامل کردیا ہے کہ ان کوسمجھنے کے لئے انتہائی باریک بین عقل درکار ہوتی ہے، اور ’سحر‘ عربی زبان میں ہر اُس چیز کو کہا جاتا ہے جو باریک ہو اور اس کا سبب مخفی ہو۔‘‘[1]
[1] تفسیر ابن کثیر، ج۱ ص۱۴۷.