کتاب: جادو کا علاج قرآن وسنت کی روشنی میں - صفحہ 36
حقیقت ہیں اور اس حقیقت کو وہی شخص وہم قرار دے سکتاہے جو ضدی اور متکبر ہو۔
(۲) جادو کے وجود پر دلائل
قرآنی دلائل
(۱) فرمانِ الٰہی ہے:
﴿وَاتَّبَعُوا مَا تَتْلُو الشَّيَاطِينُ عَلَى مُلْكِ سُلَيْمَانَ وَمَا كَفَرَ سُلَيْمَانُ وَلَكِنَّ الشَّيَاطِينَ كَفَرُوا يُعَلِّمُونَ النَّاسَ السِّحْرَ وَمَا أُنْزِلَ عَلَى الْمَلَكَيْنِ بِبَابِلَ هَارُوتَ وَمَارُوتَ وَمَا يُعَلِّمَانِ مِنْ أَحَدٍ حَتَّى يَقُولَا إِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَةٌ فَلَا تَكْفُرْ فَيَتَعَلَّمُونَ مِنْهُمَا مَا يُفَرِّقُونَ بِهِ بَيْنَ الْمَرْءِ وَزَوْجِهِ وَمَا هُمْ بِضَارِّينَ بِهِ مِنْ أَحَدٍ إِلَّا بِإِذْنِ اللّٰهِ وَيَتَعَلَّمُونَ مَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنْفَعُهُمْ وَلَقَدْ عَلِمُوا لَمَنِ اشْتَرَاهُ مَا لَهُ فِي الْآخِرَةِ مِنْ خَلَاقٍ وَلَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِهِ أَنْفُسَهُمْ لَوْ كَانُوا يَعْلَمُونَ ﴾
’’اور سلیمان2 کی بادشاہت میں شیطان جو پڑھا کرتے تھے، وہ لوگ اس کی پیروی کرنے لگے حالانکہ سلیمان2 کافر نہ تھے، البتہ یہ شیطان کافر تھے جو لوگوں کو جادو سکھلاتے تھے، او ر وہ باتیں جو شہر بابل میں دو فرشتوں ہاروت و ماروت پر اتاری گئی تھیں ، اور وہ دونوں (ہاروت و ماروت) کسی کو جادو نہیں سکھلاتے تھے جب تک یہ نہیں کہہ لیتے کہ ہم آزمائش ہیں پس تو کافر نہ ہو۔ اس پر بھی وہ ان سے ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن کی وجہ سے وہ خاوند بیوی کے درمیان جدائی کرا دیں حالانکہ وہ اللہ کے حکم کے بغیر کسی کا جادو سے کچھ بگاڑ نہیں سکتے، اور ایسی باتیں سیکھ لیتے ہیں جن میں فائدہ کچھ نہیں ، نقصان ہی نقصان ہے، اور یہودیوں کو یہ معلوم ہے کہ جو کوئی (ایمان دے کر) جادو خریدے وہ آخرت میں بدنصیب ہے، اگر وہ سمجھتے ہوتے تو جس کے عوض انہوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا، اس کا برا بدلہ ہے۔‘‘[ البقرۃ:۱۰۲]
(۲) ﴿قَالَ مُوْسَی اَتَقُوْلُوْنَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَائَ کُمْ اَسِحْرٌ ھٰذَا وَلاَ یُفْلِحُ السَّاحِرُوْنَ﴾
’’ موسی علیہ السلام نے کہا:تم سچ بات کو جب وہ تمہارے پا س آئی (جادو کہتے ہو) بھلا یہ کوئی جادو ہے؟ اور جادوگر توکبھی کامیاب نہیں ہوتے‘‘ [ یونس، ۷۷]