کتاب: جادو کا علاج قرآن وسنت کی روشنی میں - صفحہ 125
دیتے تھے۔‘‘ [1] (۱۰) حضرت انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نظر بد اور بچھو وغیرہ کے ڈسنے سے اور پہلو میں پھوڑوں سے دَم کرنے کی اجازت دی ہے۔[2] (۱۱) حضرت اُمّ سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لڑکی کے چہرے پر کالے یا پیلے رنگ کا نشان دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اسے نظر بد لگ گئی ہے، اس پر دم کرو‘‘[3] (۱۲) حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آلِ حزم کو سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے دم کرنے کی رخصت دی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے پوچھا:’’کیا وجہ ہے کہ میرے بھتیجے کمزور ہیں ، کیا وہ فقرو فاقے کا شکار ہیں ؟‘‘ انہوں نے کہا:نہیں ، بلکہ انہیں نظر بد بہت جلدی لگ جاتی ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ ان پر دم کیا کرو۔ ‘‘[4] نظر بد کی حقیقت کے بارے میں علماء کے اقوال ٭ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ: ’’نظر بد کا اللہ کے حکم سے لگنا اور اَثر انداز ہونا برحق ہے‘‘[5] ٭ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ: ’’نظر بد کی حقیقت کچھ یوں ہے کہ ایک خبیث الطبع انسان اپنی حاسدانہ نظر جس شخص پر ڈالے تواُسے نقصان پہنچے۔‘‘[6] ٭ امام ابن الاثیر رحمہ اللہ: ’’کہا جاتا ہے کہ فلاں آدمی کو نظر لگ گئی ہے، تو یہ اس وقت ہوتا ہے جب دشمن یا حسد کرنے والا انسان اس کی طرف دیکھے اور اس کی نظریں اس پر اثر انداز ہوجائیں اور وہ ان کی وجہ سے بیمار پڑ جائے‘‘[7] ٭ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ:’’کچھ کم علم لوگوں نے نظر بد کی تاثیر کو باطل قرار دیا ہے، اور ان کا کہنا ہے
[1] البخاری ج۱۰ ص۱۷۰، مسلم (۲۱۹۵). [2] مسلم (۲۱۹۶). [3] البخاری، ج۱۰ ص۱۷۱، مسلم (۲۱۹۷). [4] مسلم (۲۱۹۸). [5] تفسیر ابن کثیر، ج۱۰ ص۴۱۰. [6] ا فتح الباری، ج۱۰ ص۲۰۰س. [7] النہایۃ، ج۳ ص۳۳۲.