کتاب: جادو کا علاج قرآن وسنت کی روشنی میں - صفحہ 123
تَوَكَّلْتُ وَعَلَيْهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُتَوَكِّلُونَ (67) وَلَمَّا دَخَلُوا مِنْ حَيْثُ أَمَرَهُمْ أَبُوهُمْ مَا كَانَ يُغْنِي عَنْهُمْ مِنَ اللّٰهِ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا حَاجَةً فِي نَفْسِ يَعْقُوبَ قَضَاهَا وَإِنَّهُ لَذُو عِلْمٍ لِمَا عَلَّمْنَاهُ وَلَكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ (68) ﴾
’’اور (یعقوب علیہ السلام ) نے کہا:اے میرے بچو! تم سب ایک دروازے سے نہ جانا، بلکہ کئی جدا جدا دروازوں میں سے داخل ہونا، میں اللہ کی طرف سے آنے والی چیز کو تم سے ٹال نہیں سکتا، حکم صرف اللہ ہی کا چلتا ہے، میرا کامل بھروسہ اسی پر ہے، اور ہر ایک بھروسہ کرنے والے کو اُسی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔ اور جب وہ انہی راستوں سے گئے جن کا حکم ان کے والد نے انہیں دیا تھا، تواس کی تدبیر اللہ کی مشیت کے مقابلے میں کچھ بھی کام نہ آئی، مگر (یعقوب علیہ السلام ) کے دل میں ایک خیال پیداہوا جسے انہوں نے پورا کر لیا، بلاشبہ وہ ہمارے سکھلائے ہوئے علم کے عالم تھے، لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘(يوسف:67-68)
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ ان دونوں آیات کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ یعقوب علیہ السلام کے بارے میں بتا رہا ہے کہ انہوں نے جب ’بنیامین‘ سمیت اپنے بیٹوں کو مصر جانے کے لئے تیار کیا تو انہیں تلقین کی کہ وہ سب کے سب ایک دروازے سے داخل ہونے کی بجائے مختلف دروازوں سے داخل ہوں ، کیونکہ انہیں ‘ جیساکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما ، محمد بن کعب رحمہ اللہ ، مجاہد رحمہ اللہ ، ضحاک رحمہ اللہ ، قتادہ رحمہ اللہ اور سدی رحمہ اللہ وغیرہم کا کہنا ہے، اس بات کا خدشہ تھا کہ چونکہ ان کے بیٹے خوبصورت ہیں ، کہیں نظر بد کا شکار نہ ہو جائیں ،اور نظر کا لگ جانا حق ہے۔‘‘ [1]
(۲) فرمانِ الٰہی ہے: ﴿ وَاِنْ یَّکَادُالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَیُزْلِقُوْنَکَ باَبْصَارِھِمْ لَمَّا سَمِعُوْا الذِّکْرَ وَ یَقُوْلُوْنَ اِنَّہٗ لَمَجْنُوْنٌ﴾ [ القلم ،۵۱]
’’اور قریب ہے کہ کافر اپنی تیز نگاہوں سے آپ کو پھسلا دیں ، جب کبھی قرآن سنتے ہیں ۔ اور کہہ دیتے ہیں:یہ تو ضرور دیوانہ ہے۔‘‘
حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کا کہنا ہے:
’’یعنی اگر تیرے لئے اللہ کی حفاظت و حمایت نہ ہوتی تو ان کافروں کی حاسدانہ نظروں سے تو نظر بد کا شکار ہوجاتا، اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نظر کا لگ جانا اور اس کا دوسروں پر (اللہ کے حکم سے) اثر انداز ہونا حق ہے، جیسا کہ متعدد احادیث سے بھی ثابت ہے۔‘‘[2]
[1] تفسیر ابن کثیر، ج۲ ص۴۸۵.
[2] تفسیر ابن کثیر، ج۴ ص۴۱۰.