کتاب: جانب حلال - صفحہ 54
﴿إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا [1]”کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہی ہے۔“ سودی نظام انسانیت کی اقتصادی ضرورت قطعاً نہیں ہے۔ اصلاً تو یہی کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سود کا متبادل بیع کو قرار دیا ہے، اور یہی اسلام کے تجارتی اور اقتصادی نظام کی بہترین اور مستحکم بنیاد ہے، سود کی لعنت معرض و جود میں آنے سے قبل اسی پر کام چلتا تھا اور خوب چلتا تھا اس پر مستز اد اہل یہودی پرو پیگنڈے (Propaganda)کے جواب میں جدید دور کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر متعدد حل بھی پیش کر رہے ہیں، جو حقیقتاً احادیث میں بیع اور مرابحہ اور مشارکہ اور قراض و مضاربہ کی وضاحت پر مبنی ہیں۔ یہ سب کچھ پیش نظر رکھ کر بلا خوف و تردید کہا جاسکتا ہےکہ سودی نظام قطعاً انسان کی اقتصادی ضرورت نہیں ہے۔ جیسا کہ اس نظام کے علمبردارباورکر ارہےہیں اگر فی الواقع یہ اقتصادی ضرورت ہوتو”ضرورت“کا سہارا تو اس وقت لیا جاتا ہے جب تمام دوسرے تجربات ناکام ہو جائیں، اور نظام نہ چل سکتا ہو۔ کیا ہمارے معاشرے یا ہماری حکومتوں نے تمام معاشی نظام آزما کر دیکھ لیے ہیں؟بلکہ کوئی ایک تجربہ بھی غیر سودی نطام معیشت کا کیا ہے جو ناکام ہوا؟یا ہم صرف مغربی آقاؤں کے اشاروں اور احکام پر ان کی تجوریاں بھرنے کے لیے مسلم دنیا کو سود میں جکڑ کر غلام بنانے پر ادھار کھائے بیٹھے ہیں، اور اس سے ہٹ کر ہونے والی ہر کوشش کوبہرحال ناکام کرنے اور کوشش کرنے والوں کو بدنام کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کا رواج اور طریقہ کاریہی ہے کہ حکومتیں اپنے سیاسی، اقتصادی، معاشی اور اجتماعی مسائل کے لیے مختلف نظاموں کے تجربے کرتی ہیں۔آئین بناتى اور حسب ضرورت و احوال ان میں ترامیم کرتی ہیں، کوئی نظام مسائل کے حل میں ناکام
[1] ۔سورة البقرة:275