کتاب: جانب حلال - صفحہ 45
5۔ اسلام نے مالی امورمیں فرد اور معاشرے دونوں کے مفادات ومصالح کا تحفظ کیا ہے،البتہ اجتماعی مفاد اور ترقی کو زیادہ اہمیت دی ہے۔ارتکاز زر میں کسی کا مفاد نہیں ہے۔صرف اصحاب الأموال كيلئے بے مقصد تسکین کا سامان ہے،اس لیے مفید گردش دولت کو اہمیت دی گئی ہے۔ ﴿كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ۚ[1] 6۔ گردشِ دولت کا سب سے بہترین طریقہ قرض حسنہ اور صدقات وزکوٰۃ ہیں،اسے اللہ تعالیٰ پسند کرتے اور بڑھاتے ہیں۔اور سب سے بدترین طریقہ سودی نظام ہے جسے اللہ ناپسند کرتے اور مٹاتے ہیں۔ ﴿يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ[2] 7۔ سودحقیقتاً ارتکاز زر کا طریقہ ہے بظاہر خواہ اس میں گردشِ دولت ہی نظر آتی ہو،اسے ماہرین اقتصادیات بھی معیشت کیلئے گھن ہی قراردیتے ہیں۔ 8۔ اسلام کے نظام معیشت کا امتیاز یہ ہے کہ اس کی بنیادیں ،احسان،عفو ودرگزر اور معروف پر رکھی گئی ہیں،جس سے معاشرے میں محبت والفت کے جذبات پرورش پاتے ہیں۔اس کے برعکس سودی نظام سےبغض وعدوات کے احساسات پیدا ہوتے ہیں اور معاشرہ بے سکونی کا شکار ہوجاتا ہے۔ ﴿وَأَحْسِنْ كَمَا أَحْسَنَ اللّٰهُ إِلَيْكَ وَلا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الأَرْضِ[3] 9۔ مقروض تنگدست اور نادار ہوتو اسے سارا قرض یا کچھ حصہ معاف کردینے یا کم از کم مہلت دینے کا حکم ہے،اور یہ سب کچھ لوجہ اللہ ہونا چاہیےنہ یہ کہ اسے دی گئی مہلت کے عوض قرض میں اضافہ کرکے مزیدزیربار کردیا جائے،یہ
[1] ۔سورة الحشر:7 [2] ۔سورة البقرة :276 [3] ۔سورة القصص:77