کتاب: جانب حلال - صفحہ 43
جنگ سن لو اور اگر تم نے توبہ کرلی تو تمہارے اصل مال تمہارے لیے ہیں،نہ تم ظلم کروگے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا۔اور کوئی شخص تنگدست ہوتو اسے آسانی تک مہلت دیناہے،اور صدقہ کردینا تمہارے حق میں بہتر ہے،اگر تم جانتے ہو۔اور اس دن سے ڈر جاؤ جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جاؤ گے،پھر ہر شخص کو جو اس نے کمایا ہے پورا دیا جائے گا،اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔“ قرآن حکیم کے اس واضح اور تفصیلی بیان کے بعد کوئی شک باقی نہیں رہ جاتا کہ سود کی ہرنوع اور ہر شکل مکمل طور پر حرام ہے ،وہ ذاتی ضروریات کے لیے ہو،یاکاروباری ضروریات کیلئے،کم ہو یا زیادہ،عصر جدید کا سود ہو یا زمانہ جاہلیت کا کئی گنا،جاہلیت کے کئی گنا سود کا واقعاتی حوالے سے ذکر ہوا ہے ورنہ اس کی ہرشکل حرام ہے۔ویسے بھی عدم ادائیگی کی صورت میں سود درسود خود بخود کئی گنا ہوجاتاہے جیسے وطن عزیز کے بیرونی سودی قرضوں کی مثال سامنے ہے۔ ان آیات میں مذکورہ احکام کی مزید وضاحت اور تاکید کیلئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کافی ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((وَرِبَا الْجَاهِلِيَّةِ مَوْضُوعٌ وَأَوَّلُ رِبًا أَضَعُ رِبَانَارِبَا عَبَّاسِ بْنِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَإِنَّهُ مَوْضُوعٌ كُلُّهُ) )[1] ”اور جاہلیت کے زمانہ کا سود چھوڑ دیاگیا ہے اور سب سے پہلے میں جو اپنا سود چھوڑتا ہوں وہ عباس بن عبدالمطلب کا سود ہے،وہ سارا چھوڑدیا گیا۔“
[1] ۔صحيح مسلم،باب حجة النبي صلي اللّٰه عليه وسلم ،حديث :2137