کتاب: جانب حلال - صفحہ 38
ہے،اور اللہ تعالیٰ کے ہاں ناپسندیدہ،حرام اور اس کے غیض و غضب کا موجب ہے۔ 2۔دوسرا صدقہ وزکوٰۃ کے ذریعے گردش دولت کا ذریعہ ہے۔جس کا مقصد اللہ کی خوشنودی حاصل کرنا اور اس کے بندوں پر احسان کرنا اور ان کی مالی مشکلات میں ان کے کام آنا ہوتا ہے۔ یہ حقیقتاً صاحب مالک کے مال میں اضافہ کا ذریعہ بنتا ہے، اور اس میں کئی گنا اضافہ ہوتا ہے اور اس اضافہ کی ضمانت بھی خود اللہ تعالیٰ نے دے رکھی ہے۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کے معجزانہ کلام،قرآن کریم کا معجزانہ بیان ہے جس پر یقین کے لیے اخلاص و ایمان اور اللہ تعالیٰ پر کامل اعتماد اور توکل کی ضرورت ہے۔مادی نقطہ نظرسے یہ بات ناقابل یقین نظر آتی ہے کہ جو مال اضافے کے ساتھ واپسی کی شرط پر دیا جائے وہ ہلاکت و بر بادی کا ذریعہ ہواور جو ناقابل واپسی بلا معاوضہ دیا جائے وہ راس المال میں اضافہ کا سبب بنے۔ ارشاد فرمایا: ﴿وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ رِبًا لِيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلا يَرْبُو عِنْدَ اللّٰهِ وَمَا آتَيْتُمْ مِنْ زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللّٰهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ[1] ”اور تم جو سود دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں اس سے بڑھوتی ہو، اللہ تعالیٰ کے ہاں اس میں اضافہ نہیں ہوتا اور جو تم زکوۃ دیتے ہو اور اس سے اللہ کی خوشنودی طلب کرتے ہو، سو یہ لوگ صرف یہی اپنے مالوں کو بڑھا کر کئی گنا کرنے والے ہیں۔“ اسی مفہوم اور معجزانہ خبر کا سورۃ البقرۃ میں بھی ضمناً ذکر ہوا ہے۔فرمایا: ﴿يَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبَا وَيُرْبِي الصَّدَقَاتِ[2] ”اللہ سود کو مٹاتا اور صدقوں کو بڑھاتا ہے۔“
[1] ۔سورة الروم:30 [2] ۔سورة البقرة :276