کتاب: جانب حلال - صفحہ 166
ہے اور اُسے نقد رقم (Cash) کی ضرورت ہے تو وہ بینک میں آتا ہے، بینک سے ایک لاکھ روپے قرض لے لیتا ہے اور اپنا پلاٹ یا گھر اس رقم کے عوض (Against) گروی رکھ لیتا ہے، بینک کو ایک مقررہ مدت تک کے لیے وثیقہ لکھ دیتا ہے، مذکورہ رقم (مبلغ ایک لاکھ روپے) نکلواتے وقت وہ بینک سے اَسی ہزار روپے وصول کرتا ہے یہ فرق والے مبلغ بیس ہزار روپے وہ سُودی فائدہ ہے جو بینک کو حاصل ہوا۔گویا اس نے مبلغ ایک لاکھ روپے جو کہ اسے کئی قسطوں میں ایک مدت کے بعد جا کر ملنے تھے اس نے انہیں فوری طور پر اَسی ہزار روپے میں یکمشت خرید لیا۔۔ یہی قرض کا سُود ہے کہ جسے حرام کردیا گیا ہے۔
جب چیز قبضے میں ہو تب بیچو
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
1۔((إِذَا اشْتَرَيْتَ شَيْئًا فَلَا تَبِعْهُ حَتَّى تَقْبِضَهُ) )[1]
”جب تو کوئی چیز خریدے تو اسے اُس وقت تک نہ بیچ جب تک تو اس پر قبضہ کر نہ کر لے۔“
2۔ایک اور روایت میں ہے:
((كُنَّا نَشْتَرِي الطَّعَامَ مِنَ الرُّكْبَانِ جُزَافًا ، فَنَهَانَا رَسُول اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَبِيعَهُ حَتَّى نَنْقُلَهُ مِنْ مَكَانِهِ)) [2]
[1] ۔اخرجه احمد في المسند ج2 ص 46
[2] ۔صحيح مسلم :كتاب البيوع باب بطلان بيع المبيع قبل القبض :1526،1525،سنن ابن ماجه :باب بيع المجازفة ،مسند احمد(عن ابن عمر)