کتاب: جانب حلال - صفحہ 163
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((يَأتيِْ عَليَ النَّاسِ زَمَانُ يَسْتَحِلُّوْنَ الرِّبَا بِالْبَيْعِ يَعْنيِ الْعِيْنَة)) [1]
”لوگوں پر ایک دور آئے گا کہ جب وہ خریدو فروخت کے ذریعے سُود کوحلال جانیں گےیعنی بیع عینہ (Buy back)کریں گے۔‘‘
مذکورہ حدیث کی روشنی میں امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استدلال میں بیع العینہ(Buy back)کے عدم جواز پر فتوی دیا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ اگرچہ یہ حدیث سنداً مرسل ہے مگربالاتفاق (اس کے ذریعے) مسئلہ ہذا میں مضبوطی حاصل کرنے کے لیے یہ بہت ہی بہتر روایت ہے۔[2]
ادائیگی قرض میں از خود زیادہ دینا
حضرت ابو رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ:
((اسْتَسْلَفَ رَسُولُ اللّٰهِ صلي اللّٰه عليه وسلم مِنْ رَجُلٍ بَكْرًا،فَجَاءَ تْهُ ، إِ بِلِ مِنْ الصَّدَقَةِ قَالَ أَبُو رَافِعٍ فَقُلتُ: لَمْ أَجِدْ فيِ الإِ بِلِ إِلَّاجَمَلاً خِيَارًا رَبَاعِيًا، فَقَالَ رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم:(( أَعْطِهِ إِيَّاهُ، إِنَّ خِيَارَ النَّاسِ أَحْسَنُهُمْ قَضَاءً)))[3]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص (ایڈوانس میں) سے جوان اُونٹ اُدھارلے
[1] ۔اغاثة اللهفان:فصل وقد اخبر صلي اللّٰه عليه وسلم أن طائفة من أمته تستحل الربا باسم(مرسلا) واعلام الموقعين :ليس للعبد الا مانواه(مرسلا)
[2] ۔حاشية ابن القيم علي سنن أبي داود باب في المساقاة(فصل)
[3] ۔مؤطا امام مالك رحمة اللّٰه عليه باب مايجوز من سلف