کتاب: جانب حلال - صفحہ 127
بڑا نمایاں کرکے اس بات کو اچھالا جائے گا کہ یہ شخص جو آرہا ہے یہ جہادی مال کا چور آیا ہے ،دُنیا دیکھے گی یہ اجتماعی خیانت ہے۔ایسے انسان کا ٹھکانا دوزخ ہے نیکیاں مردود اور پہاڑ جیسے عمل رائیگاں جائیں گے۔ اللہ کے پیغمبر کا ایک خادم بلکہ خادم خاص! کیونکہ وہ جہادی خادم تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کی خدمت کررہا ہے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس جہاد میں خود موجود ہیں ایک انجانا تیر آتا ہے اور اس کے بدن میں پیوست ہوجاتا ہے اسی تیر سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ فَقَالَ النَّاسُ هَنِيئًا لَهُ الشَّهَادَةُ، فَقَالَ رَسولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّمَ: ((بَلْ، والذي نَفْسِي بيَدِهِ، إنَّ الشَّمْلَةَ الَّتي أصَابَهَا يَومَ خَيْبَرَ مِنَ المَغَانِمِ، لَمْ تُصِبْهَا المَقَاسِمُ، لَتَشْتَعِلُ عَلَيْهِ نَارًا))[1] ”پس لوگوں نے کیا شہادت مبارک ہو،پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کیوں نہیں قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بیشک وہ ایک چادر جو اس نے چوری کرلی تھی، خیبر کے مال غنیمت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس چادر کو جہنم کی آگ نے پکڑ لیا ہے اور وہ چادر اس کے بدن کے اردگرد لپٹی ہوئی ہے وہ چادر جہنم کا شعلہ بن کے اس کے عذاب کا سبب بن چکی ہے۔‘‘
[1] ۔صحيح البخاري كتاب المغازي باب غزوة خيبر:3908 صحيح مسلم كتاب الايمان باب غلظ تحريم الغلول وانه لا يدخل الجنة:115 سنن النسائي كتاب الايمان والنذور باب هل تدخل الاء صون في المال اذا نذر:3767 سنن ابي داؤد كتاب الجهاد باب في تعطيم الغلول:2336