کتاب: جادو کا آسان علاج - صفحہ 13
کروانے والے کو تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت ہی سے خارج قرار دیا ہے ۔[1]
ایسے ہی کسی کاہن و نجومی کے پاس جانا اور اس سے علاج کروانا بھی ہرگز روا نہیں ہے۔ کیونکہ انکے پاس جانا اور انکی بات کی تصدیق کرنا شریعت سے کُفر کرنا ہے۔[2]
فرشتوں، جِنّوں اور انبیاء و صالحین کے ناموں سے دَم کرنا شرک اور سخت ناجائز ہے۔
گھر کا کوئی فرد یا جو بھی دَم کرے اس کا عقیدہ صحیح ،نیّت خالص، مقصد نیک ہو۔ وہ اللہ کا تابع فرماں،گناہوں سے دور ،حرام سے گریزاں ،مریض کے اسرار وبھید ظاہر نہ کرنے والا ہو، اور دم کے بہانے کسی کو بے پردہ نہ کرے اور نہ ناجائز خلوت اختیار کرے۔ مریض اور اسکے گھر والوں کی حوصلہ افزائی اور خاطرداری کرے ،انہیں ڈرائے دھمکائے نہیں اور نہ انکی دل شکنی کرے۔ غرض مریض اور معالج دونوں کا نمازی ہونا حصولِ غرض کے لیے ضروری ہے۔[3]
دشمنانِ دین و دولت کی پہچان :
آج کل برِّ صغیر میں جادو گروں ،شعبدہ بازوں ،تعویذ گنڈے اور ٹُونے ٹوٹکے کرنے والوں کی بڑی کثرت ہوگئی ہے ، جو لوگوں کو الّو بنا بنا کر انکی جیبیں اور ایمان لوٹ رہے ہیں، ان سے بچنے کی ضرورت ہے ۔اس ٹولے کو پہچاننا کوئی مشکل امر
[1] مسند البزار، رقم الحدیث (۳۵۷۸) المعجم الکبیر (۱۸/ ۱۶۲) المعجم الأوسط (۴/ ۳۰۱) اس حدیث کو امام منذری اور علامہ البانی رحمہ اللہ نے حسن قرار دیا ہے۔ دیکھیں: صحیح الترغیب والترھیب (۳۰۴۱، ۳۰۴۲) السلسلۃ الصحیحۃ (۲۶۵۰)
[2] سنن أبي داود (۳۹۰۴) سنن الترمذي (۱۳۵) سنن ابن ماجہ (۶۳۹) مسند أحمد (۲/ ۴۲۹) اس حدیث کو امام حاکم، ذہبی اور البانی رحمہم اللہ نے صحیح کہا ہے۔
[3] تفصیل کے لیے دیکھیں: فتح الحق المبین للشیخ الدکتور عبداﷲ الطیار والشیخ سامي المبارک (ص: ۱۰۰، ۱۰۷، ۱۶۱، ۱۹۲)