کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 34
6۔ جن احادیث میں عریانی کا تذکرہ ہے ، وہ ناقابل اعتماد ہیں۔
7۔ صحیح احادیث کے ساتھ ساتھ کثیر تعداد میں ضعیف اور موضوع(من گھڑت)احادیث اس
طرح گڈ مڈ ہوگئی ہیں کہ محدثین نے اپنی فہم و بصیرت کے مطابق جو احادیث قبول کیں وہ
بھی قابل ِ اعتماد نہیں۔
8۔ ائمہ حدیث میں سے اکثریت اہل ِ فارس کی ہے ، جنہوں نے ایرانی حکومت سے مل کر اسلام کی تخریب کے لئے سازش کی اور بے شمار احادیث وضع کیں۔
9۔ احادیث کی تدوین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے دو یا اڑھائی سو سال بعد ہوئی ، لہٰذا
ان پر اعتماد کرنا ممکن نہیں۔
احادیث پر ان تمام اعتراضات کا تفصیلی جائزہ لینا یہاں ممکن نہیں ، لہٰذا ہم یہاں سب سے زیادہ مقبول عام اور زبان زد ِعام اعتراض ، جوکہ تدوین ِ حدیث کے بارے میں ہے ، کا مفصل جواب تحریر کرنے پر اکتفا کریں گے۔
تدوین ِ حدیث:
کہا جاتا ہے کہ احادیث کی تدوین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ِ طیبہ کے دو یا اڑھائی سو سال بعد اس وقت ہوئی جب امام بخاری ، امام مسلم ، امام ابو داؤد، امام نسائی اور امام ابن ماجہ رحمہم اللہ وغیرہ نے احادیث مرتب کرنے کا کام شروع کیا، لہٰذا ذخیرہ حدیث کسی طرح بھی قابل اعتماد نہیں۔
سب سے پہلے ہم یہ غلط فہمی دور کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ اقدس میں لکھائی یا کتاب کا رواج عام نہیں تھا اور لوگ محض اپنے حافظے پر اعتماد کرتے تھے ۔ ذیل میں ہم ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اسماء گرامی دے رہے ہیں جو دربار ِ رسالت کے مستقل کاتب تھے ۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے حسب ضرورت مختلف قبائل سے معاہدے یا خطوط یا رقوم کے حسابات یا سرکاری احکامات یا دینی مسائل لکھوانے کی خدمات لیا کرتے تھے، ہر صحابی کی الگ ڈیوٹی کا مفصل تذکرہ کتب ِ تاریخ میں موجود ہے۔