کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 29
تہذیب سے مرعوب ترقی پسند دانشوروں نے بھی اپنا سارا زور قلم اور ز ورِ بیان احادیث کو مشکوک اور ناقابل اعتماد باور کرانے پر صرف کردیا ہے تاکہ مشرقی معاشرے کو بھی وہی مادر پدر آزادی حاصل ہوجائے جو مغربی معاشرے کو حاصل ہے۔ عورتوں کی بے حجابی مرد و زَن کی مخلوط محفلیں ، ہر شعبہ حیات میں مرد و زَن کے مساوی حقوق ، گانا بجانا اور دیگر فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے کام نیز رشوت ، سود، جوا، شراب اور زنا جیسے حرام کاموں کو بھی کسی نہ کسی طرح سند شریعت حاصل ہوجائے۔
ائمہ حدیث کی خدمات پر ایک نظر
منکرین ِ حدیث کے اعتراضات کا جائزہ لینے سے قبل حفاظت ِ حدیث کے لئے علمائے حدیث کی قربانیوں ، کاوشوں اور جگر کاریوں پر ایک نظر ڈالنا بہت ضروری ہے۔ علم کی دنیا میں حفاظت ِ حدیث ایک ایسا عظیم کارنامہ ہے جسے اغیار بھی خراج ِ عقیدت پیش کرنے پر مجبور ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسر مارگریتھ کا یہ اعتراف کہ ’’علم حدیث پر مسلمانوں کا فخر کرنا بجا ہے بلا سبب نہیں۔ ‘‘مستشرق گولڈزیہرنے علمائے حدیث کی خدمات کا اعتراف ان الفاظ میں کیاہے:
’’محدثین نے دنیا ئے اسلام کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک اندلس سے وسط ِ ایشیاء تک کی خاک چھانی اور شہر شہر ، گاؤں گاؤں، چپہ چپہ کا پیدل سفر کیا تاکہ حدیثیں جمع کریں اور اپنے شاگردوں میں پھیلائیں ، بلا شبہ ’’رجال ‘‘(بہت زیادہ سفر کرنے والے)اور ’’جوال ‘‘(بہت زیادہ گھومنے والے)جیسے القاب کے یہی لوگ مستحق ہیں۔‘‘[1]
٭حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے صرف ایک حدیث کی تحقیق کے لئے مدینہ سے مصر کا سفر کیا۔ ٭حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ایک حدیث سننے کے لئے مسلسل مہینہ بھر کا سفر کیا۔٭حضرت مکحول رحمہ اللہ نے علم ِ حدیث حاصل کرنے کے لئے مصر، شام ، حجاز اور عراق کا سفر کیا۔ ٭امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’پہلی دفعہ طلب ِ حدیث میں گھر سے نکلا تو سات سال تک سفر میں رہا۔‘‘ ٭امام ذہبی رحمہ اللہ نے امام بخاری رحمہ اللہ کے بارے میں لکھا ہے ’’اپنے شہر بخارا کے علماء سے علم ِحدیث حاصل کرنے کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے بلخ ، بغداد ، مکہ ، بصرہ ، کوفہ ، شام ، عسقلان ، حمص اور دمشق کے علماء سے علم ِ حدیث حاصل
[1] محمڈن نیشن اسٹوڈین ، جلد 2، صفحہ 177