کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 28
مصلحتوں کے نام پر دینی جماعتوں اور بعض علمائے کرام کے قول و فعل کے اس تضاد نے شرک و بدعت کے خلاف ماضی میں کی جانیو الی طویل جدوجہد کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ ٭٭٭ فتنہ انکار حدیث انکار ِ حدیث کے معاملے میں یہ بات پیش نظر رہنی چاہئے کہ مسلمانوں میں سے بہت کم لوگ ایسے ہیں جو براہ راست سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریعی حیثیت کا انکار کرتے ہیں البتہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو سنت کے وجوب کا اقرار کرنے کے باوجود سنت سے گریز اور فرار کی راہ اختیار کرنے کے لئے احادیث پر مختلف اعتراضات کرکے ذخیرہ احادیث کو مشکوک اور ناقابل اعتماد ٹھہرانے کی مذموم کوششوں میں دن رات مصروف رہتے ہیں۔ منکرین ِ حدیث کے اعتراضات کا مطالعہ کیا جائے تو شرعی احکامات قبول کرنے یا نہ کرنے کا نقشہ کچھ اس طرح سامنے آتا ہے جیسے شرعی احکامات کا جمعہ بازار لگا ہو اور ہر گاہک کو اس بات کی پوری آزادی حاصل ہو کہ وہ تمام چیزوں کو خوب ٹھونک بجا کر دیکھے اور جس جس چیز کو اپنے مزاج او رپسند کے مطابق پائے اسے اٹھالے اور جسے ناپسند کرے ،ناک بھوں چڑھا کر وہیں رکھ دے۔ چنانچہ منکرین ِ حدیث کے ہاں عملاً یہی صورتحال نظر آتی ہے ۔ کوئی صاحب معجزات کے منکر ہیں تو کوئی صاحب پانچ کی بجائے دو نمازوں کو ہی کافی سمجھتے ہیں، کوئی صاحب تیس کی بجائے ایک یا دو روزے رکھنے سے فرض پورا ہونے کے قائل ہیں تو کوئی صاحب حج اور قربانی کی بجائے فلاحی کاموں پر رقم خرچ کرنا بہتر سمجھتے ہیں۔ کوئی صاحب زکاۃ کی شرح حکومت ِ وقت کی صوابدید پر گھٹانے بڑھانے کے قائل ہیں تو کوئی صاحب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ تک ہی محدود سمجھتے ہیں۔ کوئی صاحب قرآنی احکامات کی تفسیر اور تاویل کے لئے عہد ِ جدید کے مفتیوں کو مسند ِتفسیر پر بٹھانا چاہتے ہیں تو کوئی صاحب یہ منصب ِ جلیل حکومت ِ وقت کو عطا فرمارہے ہیں۔ فتنہ انکار ِ حدیث سے متاثر اور مغربی افکار و