کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 27
کریں۔ یہاں ہم اپنے ان بھائیوں کو بھی احساس ِ ذمہ داری دلانا چاہتے ہیں جو دعوت دین کا فریضہ بڑی محنت اور خلوص سے سرانجام دے رہے ہیں ، لیکن صحیح تحقیق نہ ہونے کے باوجود اپنی گفتگو میں ’’حدیث میں آیا ہے‘‘ یا ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے‘‘ جیسے الفاظ کثرت سے استعمال کرتے ہیں۔ یاد رکھئے!رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کوئی قول منسوب کرنا بہت بڑی ذمہ داری کی بات ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِمبارک ہے ’’جس نے جان بوجھ کر میری طرف کوئی جھوٹی بات منسوب کی وہ اپنی جگہ جہنم میں بنا لے۔‘‘(بحوالہ صحیح مسلم)پس عوام کی رہنمائی کرنے والوں کا فرض ہے کہ وہ مکمل تحقیق کے بعد سنت صحیح سے ثابت شدہ مسائل ہی لوگوں کو بتائیں اور عوام کا فرض یہ ہے کہ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب کردہ ہر بات کو سنت سمجھ کر اس وقت تک نہ اپنائیں جب تک اس بات کا مکمل اطمینان نہ کرلیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے منسوب کردہ بات فی الواقع آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا فرمان ہے۔
6۔سیاسی مصلحتیں:
آج کل دین کے حوالے سے سیاست کی وادی پرخار میں وطن عزیز کی قریباً تمام قابل ذکر دینی جماعتیں برسرِ پیکار ہیں جو جماعتیں اپنے مبلغ علم کی بناء پر خود شرک و بدعات میں مبتلا ہیں ، ان کا تو ذکر ہی کیا ، البتہ وہ دینی جماعتیں جو شرک و بدعات کی ہلاکت خیزیوں کا صحیح شعور رکھنے کے باوجود جمہور کی ناراضگی سے بچنے کے لئے اس مسئلہ پر سکوت یا مداہنت کا طرز عمل اختیار کئے ہوئے ہیں یعنی ’’یوں بھی جائز تو ہے ، لیکن نہ کرنا زیادہ بہتر ہے ،فلاں صاحب اسے ناجائز سمجھتے ہیں ، لیکن فلاں صاحب کے نزدیک یہ جائز ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ اس روش نے عوام کے ذہنوں میں مسنون اور غیر مسنون اعمال کو گڈ مڈ کرکے سنت کی اہمیت بالکل ختم کردی ہے اور اس کے برعکس بدعات کی ترویج اور اشاعت کا راستہ ہموار کیا ہے۔ بعض مبلغین جو مسند ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بیٹھ کر شرک و بدعات کی مذمت کرتے تھے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر خود شرکیہ اور بدعی افعال کے مرتکب ہونے لگے، بعض علماء کرام جو کتاب وسنت کے داعی اور علمبردار تھے ، سیاسی مجبوریوں کے نام پر لادین عناصر کی تقویت کا باعث بننے لگے۔ اسی طرح بعض دیگر دینی رہنما جو قوم کو منکرات کے خلاف جہاد کی دعوت دیتے تھے ، خود منکرات قبول کرنے کی ترغیب دلانے لگے۔ سیاسی