کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 25
﴿بَلْ وَجَدْنَا آبَائَ نَا کَذٰلِکَ یَفْعَلُوْنَ﴾ ’’ہم نے اپنے آباؤ اجداد کو ایسا کرتے پایا ، لہٰذا ہم بھی ایسا ہی کررہے ہیں۔‘‘ بعض لوگ علماء سوء کی تقلید میں بدعات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ اپنے حکمرانوں ، جن کی اکثریت دینی عقائد سے بے بہرہ اور بسا اوقات بیزار ہوتی ہے ، کی تقلید میں مزاروں پر حاضری ، فاتحہ خوانی، قرآن خوانی، محافل میلاد اور برسیوں وغیرہ جیسی بدعات میں شریک ہوجاتے ہیں کچھ لوگ رسم و رواج کی تقلید میں بدعات اختیار کئے ہوئے ہیں۔ تمام صورتوں میں اس گمراہی کا اصل سبب ایک ہی ہے، اندھی تقلید ،خواہ وہ آباؤ اجداد کی ہو، علماء سوء کی یا سیاسی لیڈروں کی یا رسم و رواج کی۔ 3۔بزرگوں سے عقیدت میں غلو: بزرگوں سے عقیدت میں غلو ہمیشہ دین میں بگاڑ کا باعث بنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے نیک متقی اور صالح بندوں کی صحبت اور محبت نہ صرف جائز بلکہ دینی نقطہ نظرسے عین مطلوب ہے لیکن جب یہ محبت اندھی عقیدت کا رنگ اختیار کر لیتی ہے تو ان بزرگوں کی غلط اور غیر مسنون باتیں بھی ان کے معتقدین کو دین کا حصہ لگنے لگتی ہیں اور وہ کارِ ثواب سمجھ کر ان پر عمل کرنا شروع کردیتے ہیں۔ حتی کہ ان بزرگوں کے خواب ، ذاتی تجربات ، مشاہدات اور حکایات وغیرہ سبھی کچھ عقیدت کے غلو میں دین کی سند سمجھ لی جاتی ہیں اور عوام الناس کے سامنے انہیں دین بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور یوں بدعی غیر مسنون افعال پھلنے پھولنے لگتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ بر صغیر میں جب صوفیائے کرام دعوت اسلام لے کر پہنچے تو محسوس کیا کہ یہاں کے عوام(غیر مسلم)گانے بجانے اور موسیقی کے بہت دلدادہ ہیں چنانچہ صوفیاء نے مصلحتاً دعوت اسلام کے لئے سماع اور قوالیوں کا طریقہ ایجاد فرمایا ، لہٰذا بزرگوں کا یہ فعل تب بھی جائز تھا اب بھی جائز ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اولاً اس قسم کی تمام حکایتیں محض افسانہ اور صوفیائے کرام پر بہتان تراشی کے سوا کچھ بھی نہیں ، ثانیا ً اگر اس نوعیت کا کوئی ایک آدھ واقعہ ہو بھی تو کسی بڑے سے بڑے بزرگ یا صوفی کا اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کے برعکس کوئی بھی فعل مسلمانوں کے لئے حجت نہیں ہو سکتا ، خواہ بظاہر وہ کتنا ہی مبنی بر مصلحت اورپُر از حکمت کیوں نہ ہو۔ غلو عقیدت میں بزرگوں اور صوفیوں کے غیر شرعی اقوال و اعمال کا دفاع عامۃ الناس میں بدعات کی ترویج اور اشاعت کا باعث بنا ہے۔