کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 22
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم!پردہ کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’آدمی اس حال میں مرے کہ شرک کرنے والا ہو۔‘‘(مسند احمد)بدعت کے بارے میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ مبارک ہے ’’اللہ تعالیٰ بدعتی کی توبہ قبول نہیں فرماتا جب تک وہ بدعت ترک نہ کرے۔‘‘(طبرانی)گویا بدعتی کی ساری محنت اور مشقت کی مثال اس مزدور کی سی ہے جو دن بھر محنت مزدوری کرتا رہے لیکن اسے کوئی مزدوری یا اجرت نہ ملے سوائے تھکاوٹ اور بربادی وقت کے۔ قیامت کے روز جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حوض ِ کوثر پر اپنی امت کو پانی پلا رہے ہوں گے تو کچھ لوگ حوضِ کوثر پر آئیں گے ، جنہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت سمجھیں گے لیکن فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتائیں گے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدبدعات شروع کردیں ، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے: ﴿سُحْقًا سُحْقًا لِمَنْ غَیَّرَ بَعْدِیْ﴾(متفق علیہ) ’’دفعہ اور دُور ہوں وہ لوگ جنہوں نے میرے بعد دین کو بدل ڈالا۔‘‘(بخاری و مسلم) پس وہ عبادت اور ریاضت جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق نہ ہو ضلالت اور گمراہی ہے۔ وہ اذکار اور وظائف جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہ ہوں ، بے کار اورلاحاصل ہیں، وہ صدقہ اور خیرات جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے طریقے پر نہ ہوں ، اکارت اور رائیگاں ہے۔ وہ محنت اور مشقت جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نہیں وہ جہنم کا ایندھن ہے﴿عَامِلَۃٌ نَاصِبَۃٌ تَصْلٰی نَارًا حَامِیَۃً﴾(40:88)یعنی ’’قیامت کے روز کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو عمل کرکرکے تھکے ہوں گے لیکن بھڑکتی آگ میں ڈال دیئے جائیں گے۔(سورہ غاشیہ ، آیت نمبر 3۔4) بدعات کے پھیلنے کے اہم اسباب: بدعات کی اہمیت کے پیش نظر ان بڑے عوامل کی نشان دہی کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے جو ہمارے معاشرے میں کثرت بدعات کا سبب بن رہے ہیں تاکہ عوام ان سے خبردار رہیں۔