کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 19
اختصار کے ساتھ صرف قرآن مجید کو اور دوسرے موقع پر وضاحت کے ساتھ قرآن و سنت دونوں کو گمراہی سے بچنے کی چیز قرار دیا ہے تو اس میں تضاد یا فرق والی کون سی بات ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں باتوں میں فرق صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو قرآن مجید کی تعلیمات سے بے بہرہ اور ناواقف ہے یا پھر جس نے دانستہ طور پر مسلمانوں کو گمراہ کرنا ہی اپنی زندگی کا مشغلہ بنا رکھا ہے۔ اہم گزارش: آخر میں ہم قرآن و سنت کے داعی حضرات کی توجہ اس طرف مبذول کرانا چاہیں گے کہ اتباعِ سنت کی دعوت کو چند عبادات کے مسائل تک محدود نہ رکھیں بلکہ یہ دعوت ساری کی ساری زندگی پر محیط ہونی چاہئے۔ نماز کی ادائیگی میں جس طرح اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح اخلاق اور کردار میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔ جس طرح روزے اور حج کے مسائل میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح کاروبار میں اور باہمی لین دین میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے، جس طرح ایصالِ ثواب اور زیارت ِقبور کے مسائل میں اتباع سنت مطلوب ہے اسی طرح منکرات کے خلاف جہاد میں بھی اتباع سنت مطلوب ہے۔جس طرح حقوق اللہ کی ادائیگی میں اتباع سنت مطلو ب ہے اسی طرح حقوق العباد کی ادائیگی میں بھی اتباع سنت مطلو ب ہے ۔ گویا اپنی پوری کی پوری زندگی میں خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ، مسجد کے اندر ہو یا مسجد کے باہر، بیوی بچوں کے ساتھ ہو یا دوست احباب کے ساتھ ،ہر وقت ، ہر جگہ سنت کی پیروی مطلو ب ہے ۔ محض عبادات کے چند مسائل پر توجہ دینا اور زندگی کے باقی معاملات میں سنت کی پیروی کو نظر انداز کردینا کسی طرح بھی پسندیدہ نہیں کہلا سکتا۔ کتاب و سنت کے داعی حضرات سے ہم یہ بھی گزارش کرنا چاہیں گے کہ خالص کتاب و سنت کی دعوت بڑی مدلل اور سائنٹیفک دعوت ہے ۔ عام آدمی جو ہر قسم کے تعصب سے پاک ذہن رکھتا ہے وہ اس دعوت کو بڑی جلدی قبول کر لیتاہے، لہٰذا لوگوں کے مزاج اور علمی استعداد کو سامنے رکھتے ہوئے ، حکمت اور موعظہ حسنہ کے اصول کو ہر گز نظر انداز نہ کریں اور یہ بات کبھی نہ بھولیں کہ انتہا پسندی کا رد عمل انتہا پسندی ہوگا ۔ ضد کا رد عمل ضد ہی ہوگا ، تعصب کا رد عمل تعصب ہی ہوگا۔ دعوت ِ دین کے معاملے میں نرمی ، تحمل ، حوصلہ ، حسن کلام اور وسیع الظرفی جو نتائج پیدا کر سکتے ہیں، سختی ، ترش کلامی ، تنگدلی اور کم