کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 18
کہیں زبان اور رسم ورواج کا تعصب ہے ، کہیں رنگ و نسل کا تعصب ہے کہیں علاقے اور وطن کا تعصب ہے ، حق اور ناحق ، جائز اور ناجائز کا معیار صرف اپنا اور پرایا ہے۔ ایک بات اگر اپنی پسندیدہ شخصیت ، جماعت یا مسلک کی طرف سے آئے تو قابل ِ تحسین ، وہی بات اگر کسی ناپسندیدہ شخصیت ، جماعت یا مسلک کی طرف سے آئے تو قابل ِ مذمت!اس تعصب کی کار فرمائی یہاں تک ہے کہ اکثر اوقات اللہ اور رسول کی بات کو بھی اسی چھلنی سے گزارا جاتا ہے۔ قارئین کرام سے ہماری درخواست ہے کہ کتب ِ احادیث کا مطالعہ ہر قسم کے تعصب سے بالا تر ہو کر کریں ۔ کہیں غلطی ہو تو اس کی نشاندہی فرمائیں ، لیکن اگر صحیح حدیث قبول کرنے میں کسی مسلک یا جماعت یا شخصیت کی عقیدت مانع ہو تو پھر اللہ کے ہاں اپنی برأت کے لئے کوئی جواب بھی سوچ رکھیں۔
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
حجۃ الوداع کے موقع پر میدان ِ عرفات میں خطبہ دیتے ہوئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں تمہارے درمیان ایک ایسی چیز چھوڑے جارہا ہوں کہ اگر اسے تھامے رکھو گے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے وہ ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب ۔‘‘(بحوالہ حجۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم از البانی)دوسرے موقع پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کے ساتھ سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی اضافہ فرمایا(بحوالہ مستدرک حاکم)غلط فہمی یہ ہے کہ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ایک چیز یعنی قرآن مجید کو ہی گمراہی سے بچنے کے لئے کافی قرار دیا ہے تو پھر دوسری چیز یعنی سنت ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم یا حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم(جن میں صحیح کے علاوہ ضعیف اور موضوع احادیث بھی شامل ہیں)کو دین میں داخل کرنے کی کیا ضرورت ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں ارشادات میں ذرہ برابر فرق یا تضاد نہیں ہے بلکہ نتیجہ کے اعتبار سے دونوں باتیں ایک ہی مفہوم رکھتی ہیں۔ بلا شبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر صرف قرآن مجید کو گمراہی سے بچنے کی چیز قرار دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی خود قرآن مجید نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم(یا احادیث ِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم)کو مسلمانوں کے لئے لازم قرار دیا ہے اور اسے ترک کرنے کو صریحاً گمراہی بتایا ہے۔ ملاحظہ ہو کتاب ہذا کا باب ’’سنت قرآن مجید کی روشنی میں‘‘ اب اگر ایک موقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے