کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 17
احادیث کو ناقابل اعتماد قرار دے کر سنت سے گریز کی راہ پیدا کرنا دراصل علم حدیث سے لاعلمی کا نتیجہ ہے ۔ غور فرمائیے کبھی آپ کو بازار سے کوئی دوا خریدنے کی ضرورت پیش آئے تو کیا آپ نے اس خدشہ کے پیش نظر کہ بازار میں اصلی اور نقلی دونوں طرح کی ادویات موجود ہیں، اصلی دوا خریدنے کا ارادہ ترک کیا ہے؟ کرنے کاکام تو یہ ہے کہ خوب چھان پھٹک کر یا کسی ڈاکٹر کی مدد سے اصلی دوا خریدی جائے نہ کہ سرے سے خریداری کا ارادہ ترک کرکے مریض کو موت کے منہ میں جانے دیا جائے ، جس طرح توحید کے ساتھ شرک کا وجود توحید پر عمل نہ کرنے کا بہانہ نہیں بن سکتا ، یا نیکی کے ساتھ برائی کا وجود نیکی ترک کرنے کا جواز نہیں بن سکتا اسی طرح صحیح احادیث کے ساتھ ضعیف یا موضوع احادیث کا وجود بھی صحیح احادیث کو ترک کرنے کا جواز نہیں بن سکتا۔ کرنے کا کام یہ ہے کہ دنیاوی معاملات کی طرح دینی معاملات کی بھی تحقیق کی جائے ، صحیح احادیث کو صدق ِ دل سے قبول کرکے ان پر عمل کیا جائے اور ضعیف یا موضوع احادیث کو بلا تامّل ترک کردیا جائے۔ احادیث کا معیار ِ انتخاب: کتب احادیث کی ترتیب کے آغاز میں ہی ہم نے یہ اصول طے کر لیا تھا کہ احادیث کا معیار انتخاب کسی مسلک اور فرقے کی تائید یا تنقیص کی بنیاد پر نہیں ہو گا بلکہ صحت ِ حدیث کی بنیاد پر ہوگا یعنی صرف صحیح یا حسن درجے کی احادیث ہی شامل اشاعت کی جائیں گی۔ اس معیارِ انتخاب کی وجہ سے مروجہ فقہی کتب میں ضعیف احادیث سے مستنبط کئے گئے بعض مسائل شامل اشاعت نہیں ہوپاتے جس پر بعض حضرات یہ سمجھتے ہیں کہ شاید کسی مسلک سے دلچسپی یا عدم دلچسپی کے باعث دوسری احادیث شامل اشاعت نہیں کی گئیں ۔ حالانکہ ایسا ہر گز نہیں ہم اس سے قبل بھی وضاحت کر چکے ہیں کہ ہماری دلچسپی کسی مسلک سے نہیں، سنت صحیحہ سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صحیح حدیث کو کتاب میں شامل کرنے یا ضعیف حدیث کو کتاب سے نکالنے میں ہم نے کبھی تامّل سے کام نہیں لیا۔ در اصل ہمارے عہد کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم تعصبات کی دنیا میں زندگی بسر کررہے ہیں، کہیں شخصیات کا تعصب ہے ، کہیں مسلک اور فرقہ کا تعصب ہے، کہیں جماعت اور پارٹی کا تعصب ہے ،