کتاب: اتباع سنت کے مسائل - صفحہ 123
حضرت محمد بن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ شروع شروع میں لوگ حدیث کی سند کے بارہ میں سوال نہیں کیا کرتے تھے ، لیکن جب فتنہ(بدعت اور من گھڑت روایات)کا پھیلنا شروع ہوا ، تو لوگوں نے حدیث کی سند پوچھنا شروع کردی(اور یہ اصول بھی بنا لیا)کہ دیکھا جائے کہ اگر حدیث بیان کرنے والے اہل سنت ہیں تو ان کی حدیث قبول کی جائے گی اور اہل بدعت ہیں ، تو ان کی حدیث قبول نہیں کی جائے گی۔ اسے مسلم نے روایت کیا ہے۔
مسئلہ نمبر 83:بدعات فتنوں میں پڑنے یا دردناک عذاب میں مبتلا ہونے کا باعث ہیں۔
سُئِلَ الْاِمَامُ مَالِکٌ رَحِمَہُ اللّٰہُ:یَا أَبَا عَبْدِ اللّٰہِ!مِنْ أَیْنَ اُحْرِمُ ؟ قَالَ:مِنْ ذِی الْحُلَیْفَۃَ مِنْ حَیْثُ أَحْرَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ، فَقَالَ:إِنِّیْ أُرِیْدُ اَنْ اُحْرِمَ مِنَ الْمَسْجِدِ مِنْ عِنْدِ الْقَبْرِ، قَالَ:لاَ تَفْعَلْ وَ إِنِّیْ اَخْشٰی عَلَیْکَ الْفِتْنَۃَ ، فَقَالَ:وَ أَیُّ فِتْنَۃٍ فِیْ ہٰذَا ؟ إِنَّمَا ہِیَ أَمْیَالٌ أُرِیْدُہَا ، قَالَ:وَ أَیُّ فِتْنَۃٍ اَعْظَمُ مِنْ اَنْ تَرَی اِنَّکَ سَبَقْتَ فَضِیْلَۃً قَصَرُعَنْہَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ؟ إِنِّیْ سَمِعْتُ اللّٰہَ یَقُوْلُ﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أَمْرِہٖ اَنْ تَصِیْبَہُمْ فِتْنَۃٌ اَوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ﴾رَوَاہُ فِی الْاِعْتَصَامِ[1]
حضرت امام مالک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا ’’اے ابو عبداللہ!میں احرام کہاں سے باندھوں؟‘‘ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ’’ذوالحلیفہ سے ، جہاں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا۔‘‘ اس آدمی نے کہا ’’میں مسجد ِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں روضہ ٔ رسول کے قریب سے باندھنا چاہتا ہوں۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ’’ایسا مت کرنا، مجھے تمہارے فتنہ میں مبتلا ہونے کا ڈر ہے۔‘‘ اس آدمی نے عرض کیا ’’اس میں فتنے کی کون سی بات ہے کہ میں نے چند میل پہلے(احرام باندھنے)کا ارادہ کیا ہے۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا’’اس سے بڑا فتنہ کیا ہو سکتاہے کہ تم یہ سمجھو(کہ احرام باندھنے کے ثواب میں)نبی پر سبقت لے گئے ہو جس سے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قاصر رہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ سے سنا ہے ’’جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں ، انہیں ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی فتنے یا دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔‘‘ یہ روایت الاعتصام(امام شاطبی کی کتاب)میں ہے۔
[1] القول الاسمی فی ذم الابتداع ، رقم الصفحہ22۔21