کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 6
بسم اللّٰه الرحمن الرحيم
مقدّمہ
(ماخوذ از خطاب علّامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ)
’’اس بات کے باوجود کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کا آغاز ہوا ،اسلام انتہائی کمزور تھا اور مسلمان بڑی کسمپرسی کے حالات میں تھے۔چند ہی لوگ تھے جنہوں نے رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کیا تھا اور ان لوگوں کو پھر ایک ایسی بڑی اکثریت کے مقابلہ میں اپنے ایمان کی شمع کو فروزاں کرنا اور محفوظ رکھنا پڑا جو اکژیت نہ صرف یہ کہ کفر میں بڑی پختہ تھی بلکہ اپنے کفر کی خاطر، اپنے عقائد کے مخالف نظریات رکھنے والوں پر ہر قسم کا تشدّد اور ہر قسم کی سختی بھی وہ جائز سمجھتے تھے۔ ایک ایسے ماحول میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کے آوازۂ حق کو بلند کیا اور لوگوں کو اس بات کا درس دیا کہ اے کائنات کے باسیو! اگر تم اللہ کی آواز پر لبّیک کہوگے، اللہ کی بات کو اپنا لوگے، اللہ کے بتلائے ہوئے راستے پر چل نکلوگے، محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمہیں جو دین عطاء کیا ہے اس دین کو مضبوطی کے ساتھ تھام لوگے، اس کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھال لوگے، تو یاد رکھو ساری دنیا کی مخالفتیں تمہاراکچھ نہیں بگاڑسکیں گی،لیکن شرط یہ ہے کہ حق اختیار کرتے ہوئے دل میں کوئی تذبذب اور ذہن میں کوئی تزلزل نہ ہو اور حق کو اختیار کرنے کے بعد پھر آدمی پامردی، جرأت، ہمت،بہادری اور استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی بات پر ڈٹ جائے۔
یاد رکھو !کسی چیز کو مان لینا، یہ اور بات ہے پھر اس بات کا اظہار کرنا یہ مختلف بات ہے، اور پھر اس بات پر ڈٹ جانا(استقامت حاصل کرنا) یہ اس سے بھی آگے کی بات ہے۔ بہت سے لوگ ایک بات کو اختیار کر لیتے ہیں ، لیکن ان میں اس بات کو ظاہر کرنے کی ہمت اور جرأت نہیں ہوتی اور بہت سے ایسے لوگ ہوتے ہیں جو ایک بات کو اپنا لیتے، پھر اس کو ظاہر کرنے کی