کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 26
’’لیکن( فائدہ والا وہی ہوگا)جو اللہ کے سامنے بے عیب دل لے کر آیا۔‘‘ دورِ حاضر کے حالات مسلمان کے دل پر شدید فتنوں کا باعث بن رہے ہیں جو استقامتِ دین سے روکتے اور ہویٰ پرستی کی دعوت دیتے ہیں اور اُن کی وجہ سے مسلمان کو استقامت ِ دین میں مزید دقتّوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس فتنوں سے لبریز دور میں جو بندہ ثابت قدمی اختیار کیے رہا، اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے اس کے لیے پچاس گُنا زیادہ ثواب کا وعدہ کیا ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اُس حدیث میں وارد ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایام کی آمد کی پیشین گوئی فرمائی ہے جو مسلمان سے شدید صبرکے طالب ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: ((فَإِنَّ وَرَائَ کُمْ أَیَّامُ الصَّبْرِ،صَبْرٌ فِیْھِنَّ کَقَبْضٍ عَلٰی الْجَمْرِ،لِلْعَامِلِ فِیْھِنَّ أَجْرُ خَمْسِیْنَ یَعْمَلُ مِثْلَ عَمَلِہٖ)) (حسن:ابوداؤد،ترمذی،ابن ماجہ) ’’تمہارے بعدصبر کے ایام ہوں گے۔ان دنوں صبر اس طرح ہوگا جیسے کوئی آگ کے انگارے کو مٹھی میں پکڑے ہوئے ہو۔ایسے وقت میں جو کوئی اچھے اعمال کرے گا تو اسے ان پچاس آدمیوں کے برابر ثواب ملے گاجنہوں نے ویسا ہی عمل کیا ہوگا۔‘‘ یہ اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے کہ اس نے ہمیں زیادہ ثواب اور بکثرت جزاء کی بشارت سنائی ہے جو ہمیں استقامتِ دین کی رغبت دلانے کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے صبر اور تحمّل میں آسانی بھی پیدا کرتی ہے۔