کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 24
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرف یہ وحی بھیجی : {اَنِ اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْبَحْرَ فَانْفَلَقَ فَکَاَن کُلُّ فِرْقٍ کَالطَّوْدِ الْعَظِیْمِoوَاَزْلَفْنَا ثَمَّ الْاٰخَرِیْنَoوَاَنْجَیْنَا مُوْسیٰ وَمَنْ مَّعَہٗ اَجْمَعِیْنَoثُمَّ اَغْرَقْنَا الْاٰخَرِیْنَo} (سورۃ الشعراء:۶۴-۶۶) ’’کہ دریا پر اپنی لاٹھی مار،پس اسی وقت دریا پھٹ گیا اور پانی کا ہرحصہ مثل بڑے پہاڑ کے ہوگیا۔اور ہم(اللہ) نے اس جگہ دوسروں(فرعون اور اسکے لشکر) کو لاکرکھڑا کردیااور موسیٰ( علیہ السلام)کو اور اس کے تمام ساتھیوں کو نجات دے دی۔پھر سب دوسروں کو ڈبودیا۔‘‘ اس طرح اللہ نے موسٰی علیہ السلام اور انکے ساتھیوں کو بچا لیا اور فرعون اور اسکا لشکر پانی میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا۔ اسی طرح کے کئی واقعات کا تذکرہ ہمیں سیرت کی کتابوں میں ملتا ہے۔ فتنۃ اور استقامت: پُر فتن دور میں استقامت اختیار کیے رکھنا زیادہ مشقّت کا باعث بنتا ہے کیونکہ فتنہ سیدھا دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( تُعْرَضُ الْفِتَنُ عَلٰی الْقُلُوْبِ کَالْحَصِیْرِ عُوْدًاعُوْدًافَاَیُّ قَلْبٍ اُشْرِبِھَا نُکِتَ فِیْہِ نُکْتَۃٌ سَوْدَآئُ وَاَیُّ قَلْبٍ اَنْکَرَھَانُکِتَ فِیْہِ نُکْتَۃٌم بَیْضَآئُ حَتّٰی تَصِیْرَعَلٰی قَلْبَیْنِ عَلٰی اَبْیَضَ مِثْلِ الصَّفَافَلَا تَضُرُّہٗ فِتْنَۃٌ مَاَدَامَتِ السَّمٰوَاتُ وَالْاَرْضُ وَالْاٰخَرُاَسْوَدُمُرْبَا دًّا کَالْکُوْزِ مُجَخِّیًا لَا یَعْرِفُ مَعْرُوْفًاوَّلَا یُنْکِرُمُنْکَرًااِلَّا مَآ اُشْرِبَ مِنْ ھَوَاہُ)) (صحیح مسلم) ’’فتنے دلوں پر یکے بعد دیگرے ایسے آئیں گے جیسے چٹائی کی تیلیاں ایک