کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 23
چیزبن جا۔‘‘ پس جب ابراہیم علیہ السلام نے استقامتِ دین اور اللہ پر توکّل کا مظاہرہ کیا تو اللہ تعالیٰ نے کفار کے منصوبوں سے اپنے نبی علیہ السلام کی حفاظت فرمائی، اور قرآن ِ کریم میں ارشاد فرمایا: {وَاَرَادُوْابِہٖ کَیْداً فَجَعَلْنٰھُمُ الْاَخْسَرِیْنَo}(سورۃ الأنبیاء:۷۰) ’’اور انہوں نے اُن(ابراہیم علیہ السلام)کا برا چاہا،لیکن ہم نے انہیں نقصان اٹھانے والے بنادیا۔‘‘ ایک اور بہترین مثال حضرت موسیٰ علیہ السلام کی استقامتِ دین اور توکّل علیٰ اللہ کی بھی ملاحظہ فرمائیں ۔فرعون ایک بڑے لشکر کو لے کر جس میں قائدین،شہزادے،نواب زادے اور سپاہی شامل تھے، حضرت موسیٰ علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی نیت سے انکا پیچھا کر رہا تھا۔ وہ طلوعِ آفتاب کے وقت تعاقب کرتے ہوئے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کے پیروکاروں کے نزدیک پہنچ گئے۔ اللہ نے بیان فرمایاہے : {فَلَمَّا تَرَآ ئَ الْجَمْعٰنِ قَالَ اَصْحٰبُ مُوْسٰٓی اِنَّا لَمُدْرَکُوْنَo} (سورۃ الشعراء:۶۱) ’’پس جب دونوں جماعتوں نے ایک دوسرے کو دیکھ لیا،تو موسیٰ( علیہ السلام) کے ساتھیوں نے کہا،’’ہم تو یقینا پکڑ لیے گئے۔‘‘ کیونکہ آگے سمندر تھا اور پیچھے فرعون اور اُس کا لشکر انکے قریب تر قریب پہنچ رہا تھا ۔ اب بچاؤ کی کیا صورت ہو سکتی ہے؟ مگر موسیٰ علیہ السلام نے توکّل علیٰ اللہ کا دامن ہاتھ سے چھو ٹنے نہیں دیا اور کہنے لگے: { کَلَّا اِنَّ مَعِیَ رَبِّیْ سَیَھْدِیْنَ} (سورۃ الشعراء:۶۲) ’’ ہر گز نہیں ،یقینا ، میرا رب میرے ساتھ ہے، جو ضرور مجھے راہ دکھلائے گا۔‘‘ فرعون کا لشکر تیزی سے آگے بڑ رہا تھا اور ان کے بالکل قریب ہوگیا۔ اُس موقع پر اللہ تعالیٰ نے