کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 21
’’تم اِن( کافروں)سے نہ ڈرو اور میرا خوف رکھو،اگر تم مومن ہو۔‘‘
علّامہ احسان الٰہی ظہیر ؒ اپنے ایک خطاب میں فرماتے ہیں :
’’بچپن میں قصوں میں بھی پڑھا ہے اورمشہور واقعہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سوئے ہوئے تھے۔ ایک مشرک آیا ، آپ کی درخت سے لٹکی ہوئی تلوار کو اتارا۔ اس کو میان سے باہر نکالا اور سوئے ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی گردن پہ رکھ دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھ کھل گئی، قتل کا ارادہ لے کر آیا، کہا: آج موت اتنی قریب ہیکہ صرف دباؤ کا فاصلہ باقی ہے۔ گردن پر رکھی ہوئی، شہ رگ پر رکھی ہوئی تیز تلوار۔ اے محمد! آج تجھے مجھ سے کون بچائے گا؟ اتنی قریب موت دیکھ کر بھی رحمتِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے لبوں پر مسکراہٹ ہے، کہا: تیرے ہاتھ میں موت نہیں ۔ موت عرش والے کے پاس ہے۔ وہ نہ چاہے تو کائنات کی کوئی طاقت مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا نام لیا، مشرک پر لرزا طاری ہوا۔ تلوار ڈر کے مارے چھوٹ کر دور گر گئی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جلدی سے اٹھ کے تلوار پکڑ لیتے ہیں ۔ اب وہ نیچے ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اوپر۔ پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گلے پر تلوار رکھی ہوئی تھی اب مارنے والے کےگلے تلوار رکھی ہوئی ہے۔ اب تم بتلاؤ تجھے محمد سے کون بچائے گا؟منتیں کر کے کہنے لگا تو مجھ کو معاف کر دے۔ کہا :نہیں تجھے بھی میرا رب ہی بچا سکتا ہے۔ توحید کا درس یہ ہے، نہ نفع میں کوئی ، نہ نقصان میں کوئی۔ ما سوا اللہ سے بے نیاز ہو جائے۔‘‘(ماخوذ از خطاب علّامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللّٰه)
جب بندہ غیرُاللہ کا خوف دل سے نکال کر اللہ پر بھروسہ کرتاہے تو ایسے بندوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
{وَ مَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلٰی اللّٰہِ فَھُوَحَسْبُہٗ،اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ} (سورۃ الطلاق:۳)
’’اور جو شخص اللہ پر توکّل کرے گا، اللہ اسے کافی ہوگا۔ اللہ تعالیٰ اپنا کام پورا کرکے ہی رہے گا۔‘‘