کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 18
بنانے سے تعبیر کیا ہے، جو دوسرے الفاظ میں شرک(اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا) کہلاتا ہے،چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
{اَرَئَ یْتَ مَنِ اتَّخَذَاِلٰھَہٗ ھَوٰہُ اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْہِ وَکِیْلاًoاَمْ تَحْسَبُ اَنَّ اَکْثَرَھُمْ یَسْمَعُوْنَ اَوْ یَعْقِلُوْنَ اِنْ ھُمْ اِلَّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلاًo} (سورۃ الفرقان:۴۳۔۴۴)
’’کیا آپ نے اسے بھی دیکھا جو اپنی خواہش ِ نفس کو اپنا معبود(رب) بنائے ہوئے ہے؟ کیا آپ اسکے ذمہ دار ہوسکتے ہیں ؟کیا آپ اسی خیال میں ہیں کہ ان میں سے اکثر سنتے یا سمجھتے ہیں ؟وہ تونرے چوپایوں جیسے ہیں بلکہ اُن سے بھی زیادہ بھٹکے ہوئے ہیں ۔‘‘
غرض اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو دو گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے؛وحی کی اتّباع کرنیوالے اورہویٰ(خواہشات ِ نفس)کی پیروی کرنے والے۔ اس بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا ہے:
{فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْالَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَھْوَآئَ ھُمْ وَمَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ ط اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَo} (سورۃ القصص:۵۰)
’’پھر اگر یہ تیری نہ مانیں تو تُو یقین کرلے کہ یہ صرف اپنی خواہشات کی پیروی کررہے ہیں ۔اور اُس سے بڑھ کر بہکا ہوا کون ہے جو اپنی خواہشات کے پیچھے پڑا ہوا ہو بغیر اللہ کی رہنمائی کے،بیشک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
پس جس کسی نے اللہ تعالیٰ کے دین پر ثابت قدمی اختیار کی، اُ س نے جنت کی راہ چُن لی اور جس کسی نے اپنی خواہشات کی پیروی کی، وہ اس راہ پر چل پڑا جو ہمیشگی والے دردناک عذاب کو پہنچتا ہے ،جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: