کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 17
چنانچہ مذکورہ احادیث میں ہویٰ پرستی(دلی خواہشات جو اللہ کے احکامات کے خلاف ہوں انکی پیروی)سے ممانعت اور تنبیہ موجود ہے اور استقامتِ دین کا مطالبہ ہے کہ بندہ خواہشاتِ نفسانی کو کچل کر اللہ کی مقررکردہ حدود میں رہتے ہوئے زندگی بسر کرے ۔ اور استقامت( دین پر ثابت قدم رہنے) اور اللہ کے احکام کی خلاف ورزی سے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے یقینا شدید صبر اور تحمّل کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے کہ وہ شخص جو اپنی بُری خواہشات مثلاً غصّہ پر قابو رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہو، وہ اس شخص سے زیادہ طاقتور اور مضبوط ہے جو اپنی جسمانی قوّت کی بناء پر لوگوں کو قابو میں کرلے۔ اس لیے کہ پہلا شخص اپنی بُری خواہشات کو دفع کرتے وقت اپنی ہویٰ اور شیطان کے وساوس کا مقابلہ کرتا ہے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاہے:
((لَیْسَ الشَّدِ یْدُ بِا لصُّرْعَۃِ،إِنَّمَا الشَّدِیْدُ الَّذِيْ یَمْلِکُ نَفْسَہٗ عِنْدَالْغَضَبِ)) (صحیح بخاری)
’’طاقتور وہ نہیں جو کُشتی لڑنے میں غالب آجائے بلکہ اصل طاقتور تووہ ہے جوغصّہ کی حالت میں اپنے آپ پر قابو پالے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے جنت کی بشارت سنائی ہے جو ہویٰ پرستی(اپنی بری خواہشات) پرقابوپاسکتے ہوں اوردین پر ثابت قدم رہ سکتے ہوں ۔
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں فرمایا ہے:
{وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَ نَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰیoفَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰیo} (سورۃ النّٰزعٰت:۴۰۔۴۱)
’’ہاں جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہا ہوگا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہوگا‘ تو اُ س کا ٹھکانا جنت ہی ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے قرآن ِ کریم میں ہویٰ کی پیروی(اللہ کے سوا خواہشاتِ نفس)کو رب