کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 13
استقامت ِقول وعمل(اعضا ئِ جسم):
استقامتِ قول و عمل سے مراد یہ ہے کہ بندہ اپنی زبان سے ایمان کا اقرار اور اظہار کرے اور اللہ کے احکام کو عملی جامہ پہنائے ۔ پھر اقرار اور عمل کے بعد ایسا کوئی کلمہ زبان سے نہ کہے اور ایسا کوئی عمل اس سے سرزد نہ ہو جو اللہ کی رضا ء اور خوشنودی کے خلاف یا اسکے احکام کے منافی ہو۔
پس استقامت ِ قلب کے ساتھ ہی ہرمسلمان کو چاہیئے کہ استقامت ِ قول وعمل پربھی توجہ دے اور خصوصی طور پر اپنی زبان کی حفاطت کرے، کیونکہ جو اعضاء ایمان کو تباہ و برباد کر سکتے ہیں ان میں سب سے آگے زبان ہے۔
حضرت سفیان بن عبداللہ ثقفی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہے:
((قُلْتُ:یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ!مَا اَکْثَرُ مَا تَخَافُ عَلَیَّ؟فَاَخَذَ رَسُوْلُ اللّٰہِ ﷺبِطَرَفِ لِسَانِ نَفْسِہٖ،ثُمَّ قَالَ:ھَذَا))
(مختصر صحیح مسلم:۱۸،ترمذی:۱۵۲۲حسن صحیح،ابن ماجہ:۲/۱۳۱۴،نسائی بحوالہ صحیح الجامع للالبانی:۴۳۹۵، مسند احمد بحوالہ تفسیر ابن کثیر ۴/۸۹)
’’میں نے عرض کیا:اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !آپ میرے لیے کس چیز کا سب سے زیادہ خوف رکھتے ہیں ؟ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کے کنارے کو پکڑتے ہوئے فرمایا:’’یہ‘‘