کتاب: استقامت( راہ دین پر ثابت قدمی) - صفحہ 10
استقامت کیا ہے؟
استقا مت کا لغوی معنیٰ’’ کھڑے ہونا‘‘ اور’’ سیدھے ہو جانا‘‘ ہے۔ استقامت کے شرعی مفہوم کے متعلّق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ،تابعین اوردیگر علمائِ کرام کے متعدّد اقوال موجود ہیں ۔
حضرت ابن عباس اورحضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
(اَیْ اِسْتَقَامُوْا عَلٰی اَدَائِ فَرَائِضِہٖ)
(بحوالہ قواعد وفوائد من الاربعین النوویہ للشیخ ناظم محمد سلطان،ص۱۸۵،طبع دار الہجرۃ الثقبہ، الخبر)
’’اِن آیات میں استقامت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن فرائض کی ادائیگی کاانہیں حکم فرمایا ہے،وہ انہیں پوری طرح ادا کرتے ہیں ۔‘‘
قاضی عیاضؒ کا قول ہے:
(اَیْ وَحَّدُوْا اللّٰہَ وَآمَنُوْابِہٖ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا فَلَمْ یَحِیْدُوْا عَنِ التَّوْحِیْدِ وَالْتَزَمُوْا طَاعَتَہٗ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی اِلٰی اَنْ تَوَفَّوْا عَلٰی ذَالِکَ)
(شرح مسلم نووی۱/۲۰۳)
’’انہوں نے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت(توحید)کااقرار کیا،اُس پر ایمان لائے اور اُس پراستقامت اختیار کیے رہے،یعنی توحید پر قائم رہے اوراُس پرسے ہٹے نہیں بلکہ اس پرجمے رہے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لاتے رہے ، یہاں تک کہ انہیں اِسی حالت میں موت آگئی۔‘‘
امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ کا قول ہے:
(اَیْ اَخْلَصُوا الْعَمَلَ لِلّٰہِ وَعَمِلُوْاالطَّاعَۃَ عَلٰی مَاشَرَعَ اللّٰہُ لَھُمْ)
(تفسیر ابن کثیر۴/۸۹طبع دارالقلم،بیروت)