کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 9
اللّٰہُ أَعْلَمُ بِإِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَانْکِحُوْ ہُنَّ بِإِذْنِ أَہْلِہِنَّ وَاٰتُوْہُنَّ أُجُوْرَ ہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلاَ مُتَّخِذٰتِ أَخْدَانٍ ﴾۴۱؎ ’’ان کے ماسوا جتنی عورتیں ہیں انہیں اپنے اموال کے ذریعے سے حاصل کرنا تمہارے لیے حلال قرار دیا گیاہے،بشرطیکہ حصار نکاح میں ان کو محفوظ کرو۔نہ یہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو…… لہٰذا ان کے سرپرستوں کی اجازت سے ان کے ساتھ نکاح کرلو اور معروف طریقے سے ان کو مہر ادا کردو تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ(محصنات) ہوکر رہیں۔آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اورنہ چوری چھپے آشنائی کریں۔‘‘ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں کسی بھی قسم کی غیرقانونی اور خفیہ جنسی تعلقات سختی سے منع کئے گئے ہیں۔نئی نسل کی تربیت اور عورتوں کے حقوق کا تحفظ ایسے دو پہلو ہیں جن پر اسلام کے معاشرتی نظام میں بہت زور دیا گیاہے۔اسلام غیر قانونی وصل و صحبت کو ایک ایسااذیت ناک وسیلہ سمجھتا ہے جو بچوں کو ایک مشکوک حسب و نسب عطا کرتا ہے۔اس صورت میں بچے کی پیدائش کے بعد معاشرے میں تمام ذمہ داری عورت پرآتی ہے۔جن سے توقع کی جاتی ہے کہ بحیثیت اکیلی ماں ایسے بچوں کی پرورش کرے گی۔پھر ایسے بچے مستقبل میں جاکر اپنے غیر مستحکم تعلقات شروع کرتے ہیں اور پھر اس طرح کا ایک چکر چلتا رہتاہے۔اسلام ایک مرد اور عورت کے تمام جنسی تعلقات کو اسکے اپنے نکاح کے ساتھی تک محدود کرتا ہے اورایسے تعلقات کو خود اپنے خاندان کے بہت قریبی رشتہ داروں کے درمیان ممنوع قراردیتا ہے۔اسکے نظام میں تمام تعلقات کی بنیاد تقویٰ اور خدا ترسی ہے۔خاندان سے باہر غلط طریقے سے تکمیل خواہشات کے تمام رابطوں پر پابندی لگانے کیلئے اسلام،پاکدامنی،حجاب،نگاہوں کو نیچا رکھنا اور روزے رکھنے پر زور دیتا ہے۔اسلام میں خاندان کو جذباتی امداد،تحفظ اور اشتراک عمل کا ایسامرکز سمجھا جاتاہے جہاں آنیوالی نسلوں میں درست دینی علوم اور اعلیٰ اقدار راسخ کی جاتی ہیں۔ اس بات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کہ خاندان میں قیادت اور سرپرستی مردوں کو سونپی گئی ہے۔ ﴿أَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ ﴾۴۲؎ لیکن یہ خاندان کے افراد کی معاشی امداد کے ساتھ ساتھ اضافی ذمہ داریاں ہیں نہ کہ وسیع اختیارات کا مطلق العنان منبع ومصدر۔اسی طرح یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود کہ عورتوں کا دائرہ کار گھر کے کاموں اور بچوں کی نگہداشت ہی ہے۔ ﴿قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ﴾۴۳؎ اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتیں خاندان کی ساخت میں ایک گھٹیا اکائی یا کم درجے کے وجود ہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں مردوں کو عورتوں پرایک درجہ بڑائی سے پیدا کرنے کا مقصد اس پراضافی ذمہ داریاں ڈالنا ہے نہ کہ انہیں اضافی حقوق سے نوازنا ہے۔خاندان کو ایک چھوٹے درجے کی جمہوریت سمجھنا چاہئے۔تاکہ یہ جمہوریت جو ملک کے سیاسی نظام میں بڑے درجے پر اپنا درست عکس دکھا سکے۔مردوں کے قوام ہونے کا مرتبہ انہیں ایک جابر،ظالم اور منہ زور ڈکٹیٹر کے مترادف بن جانے کے لیے نہیں دیا گیا کہ اپنے خاندان کی عورتوں سے بلا کسی چوں چراں کے فرمان برداری کا مطالبہ کریں۔ خاندان کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے اور انہیں تنزلی سے نکالنے میں خاوند اور بیوی کا بہت بڑا کردار شامل ہے۔خاندانی نظام اس وقت ہی صحیح راہ پر چلے گا جب خاندان کے بنیادی اور اساسی افراد اور ارکان میں سے ہر ایک اپنے حقوق و فرائض کا خیال کرے گا اور یہ بات بھی یاد رہے کہ ایک رکن خاندان کے حقوق جہاں پر ختم ہوتے ہیں وہاں سے دوسرے کے حقوق کا آغاز ہوتا ہے۔اس حوالے سے