کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 86
منسوب کیا جاتا ہے اور عوام الناس میں مشہور ہے۔اسی بناء پر یہ موقف اسلامی احکام میں فٹ بھی نہیں بیٹھتا کہ جس مذہب میں لڑکا لڑکی کی علیحدگی میں ملاقات،خفیہ دوستی،غیر محرم سے لوچ دار آواز میں بات چیت کی ممانعت اور دیگر اسی قسم کے احکامات موجود ہوں وہاں اس طرح کی اجازت کیسے دی جا سکتی ہے۔اور ان احکام کی موجودگی میں کوئی لڑکی کس طرح غیر محرم کو نکاح کے لئے پرکھ سکتی ہے،جبکہ اس سے دوستی حرام،میٹھی بات کرنا حرام اور علیحدہ ملاقات حرام ہو۔ چنانچہ ان واضح احکام کی خلاف ورزی کئے بغیر،لڑکے اور لڑکی کا باہمی فیصلے سے نکاح پر راضی ہونا عملاً ممکن نہیں رہتا۔اسلام نے اس لئے لڑکی کی طرف سے یہ ذمہ داری ولی کو سرانجام دینے کی ہدایت کی ہے۔ جدید قانونی تشریحات،اسلامی ممالک میں نافذ العمل قوانین و فتوے،مغربی اور اسلامی تہذیب میں تقابل قرآن مجید،مفسرین قرآن،احادیث نبویہ اور محدثین عظام،خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سب کا متفقہ موقف اس سے قبل تفصیل سے بیان ہو چکا ہے۔فقہاء کی اکثریت بلکہ سب کا اتفاق بھی اسی امر پر ہے کہ ولی کے بغیر نکاح باطل ہے،کیونکہ نکاح میں اگر یہ پابندی اٹھالی جائے تو زنا اور نکاح میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔شریعت جو حرام چیزوں کی طرف جانے والے سب راستوں کو بھی بند کرتی ہے کس طرح اس راستے کو کھولنے پر تیار ہو سکتی ہے۔ در حقیقت حقوق انسانی کے اس خوشنما نعرے کے پس پردہ ایک ایسے مکمل نظام کو سند جواز مل جاتی ہے جو ماں باپ کے احترام واطاعت اور رشتہ داریوں میں قرب وصلہ رحمی اور ذمہ داری کے تصورات سے عاری ہے۔اس بات پر کیسے یقین کر لیا جائے کہ بلوغت کے بعد بھی نکاح سے قبل تک لڑکا اور لڑکی کے ہر قول وفعل کے ذمہ دار ان کی کفالت،تعلیم،مسائل اور پریشانیوں میں ان کے ساتھی والدین کو اسلام بیک قلم شادی اور شریک زندگی کے انتخاب کے موقع پر تمام حقوق سے محروم کر سکتا ہے۔اس مرحلے پر آمر والدین کو بے دخل کردیا جائے تو لا محالہ وہی نظام وجود میں آئے گا جہاں ماں باپ کو پالنے پوسنے پر مجبور کر نے کے لئے حکومت قانون سازی کرتی ہے۔اور بلوغت کے بعد یہی اولاد اپنے ماں باپ کا گھر چھوڑ کر بالکل بیگانی ہوجاتی ہے۔مغربی نظام میں تو ایسی بے راہ روی اور قطع تعلقی کی اجازت مل سکتی ہے لیکن اسلام جو محبت والفت،ذمہ داری اور احسان سلوک،والدین کی اطاعت اور فرمانبرداری اور ذہنی وقلبی سکون کا دین ہے،اس میں یہ سب کیونکر ممکن ہے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ بلوغت تک پہنچنے اور شادی ہونے تک لڑکی کو پالنے،تربیت دینے اور زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کی تمام ذمہ داریاں والدین پر عائد ہوتی ہیں،لیکن اسلامی احکام کی رو سے مطلقہ یا بیوہ خاتون کی کفالت کی ذمہ داری بھی خاتون کے والدین یا بصورت دیگر بھائیوں(ولی کے قائم مقام)پر ڈالی گئی ہے۔لہذا ایسے معاشرے میں جہاں طلاق کی صورت میں،باپ ہی پر لڑکی کی کفالت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہو،باپ کو بطور ولی عمل نکاح سے خارج کردینا،تصادم کی راہ پر لے جاتا ہے۔کنواری اور مطلقہ عورت کی کفالت کی ذمہ داری ولی کے اس حق کا جواز پیدا کرتی ہے کہ وہ نکاح کے فیصلے میں بھی بیٹی کے ساتھ شریک ہو۔معاشقے اور ولی کی اجازت سے عاری شادیاں،والدین اور اولاد میں دوریاں پیدا کرنے اور باہمی ذمہ داریوں سے گریز کا باعث ہوں گی۔مغربی معاشرہ ان نتائج کا شاہد ہے جہاں نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ اولاد کو پالنے پوسنے کا پابند بنانے کے لئے حکومتوں کو قانون سازی پر مجبور ہونا پڑا ہے۔دوسری جانب بالغ ہوتے ہی اولاد،ماں باپ سے بیگانہ ہوکر گھر بار چھوڑ جاتی ہے۔اسلام ایک ایسا معاشرہ پیدا کرنا چاہتا ہے