کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 84
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مقابلے میں میری بات کو چھوڑ دو:صحیح حدیث ہی میرا مذہب ہے۔‘‘ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا’جامع المسانید‘ میں یہ حدیث:’’لا نکاح إلا بولي‘‘خود روایت کرنا اور صحیح حدیث کو اپنا مذہب قرار دینا واضح کرتا ہے اس مسئلے پر امام صاحب کا مؤقف کیا ہوگا۔اسی حدیث کی بنیاد پر نامور حنفی علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے ’لا نکاح إلا بولي‘ کو آپ کا موقف بتایا ہے جیسا کہ یہی بات امام صاحب کے دوسرے شاگرد حسن بن زیاد رحمہ اللہ سے بھی مروی ہے۔جو کہ درج ذیل ہے۔ ٭ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف ان کے دو شاگرد امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ اور حسن بن زیاد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں: ’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نکاح میں ولی کے نہ ہونے پر یہ رائے بھی رکھتے ہیں کہ نکاح صحیح نہیں ہوتا۔جیسا کہ ان کے شاگرد حسن بن زیاد رحمہ اللہ نے آپ سے روایت کیا ہے کہ ’اگر لڑکی غیر کفو میں ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کرے تو یہ نکاح صحیح نہیں ہوگا۔‘‘۶۷؎ ٭ امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’فأما ابو حنیفہ فقال إذا وضعت نفسہا فی کفائۃ ولم تکسر فی نفسہا فی صداق فالنکاح جائز ومن حجتہ قول عمر فی ہذا الحدیث أو ذی الرأی من أہلہا أنہ لیس بولي وقد أجاز نکاحہ لأنہ إنما أراد أن لا تکسر فإذا فعلت ہی لک جاز‘‘۶۸؎ ’’امام محمد رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔اگر اس کے اور ولی کے درمیان اختلاف ہو تو بادشاہ اس کا ولی ہے جس کا کوئی ولی نہ ہو… امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا کہ جب کوئی عورت اپنے کفو میں شادی کرے اور مہر مثل میں کمی نہ کی ہو تو نکاح جائز ہے۔اس بارہ میں ان کی دلیل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ ارشاد ہے ’أو ذی الرأی من أھلھا ‘(یعنی گھر میں سے کسی اہم فرد کو نکاح میں ولی بنا لے )حالانکہ وہ ولی نہیں،لیکن اس کے نکاح کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جائز قرار دیا۔اس لئے کہ ان کا مقصد یہ تھا کہ وہ عورت مہر میں کمی نہ کرے۔جب یہ کرے تو نکاح جائز ہے۔‘‘ غور فرمائیے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے دونوں شاگردوں نے آپ کا موقف کیا بیان کیا ہے… امام حسن بن زیاد رحمہ اللہ نے تو ولی کے بغیر ہونے والے نکاح کا ناقابل اعتبار ہونا امام صاحب کا موقف بتایا ہے جبکہ امام محمد رحمہ اللہ نے اصل ولی کے علاوہ گھر میں سے کسی با اثر کا،عورت کا نکاح کر دینا،امام صاحب سے صحیح بیان کیا ہے۔اور اس میں امام صاحب کی دلیل حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا مذکور قول ہے۔ ثابت ہوا کہ امام صاحب کے موقف میں اصل ولی(والد)کی بجائے گھر کے کسی صاحب الرائے کا،عورت کا نکاح کر دینے سے نکاح منعقد ہو جاتا ہے۔جس کا مطلب قطعا یہ نہیں بنتا کہ عورت اپنا نکاح پورے خاندان کو چھوڑ کر خود کرتی پھرے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف نامور حنفی علماء کی زبانی عورت کے نکاح کے لئے ولی کی ضرورت سے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مسلک اعتدال پر مبنی ہے۔جس میں ولی اور لڑکی دونوں کے مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ ٭ علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں: ’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب یہ ہے کہ جب ولی اور عورت کی رائے میں تضاد پایا جائے تو عورت کی رضامندی کی اہمیت ہوگی اگرچہ عورت اپنے ولی کی رضا حاصل کرنے کی پابند ہے اس طرح ولی عورت کی رضا مندی حاصل کرنے کا بھی پابند ہے۔معاملے کی