کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 81
’’ حسین ابراہیم بن عبد الرحمٰن بن عوف کی بیٹی نے بغیر ولی کی اجازت کے اپنا نکاح خود کر لیا،تو ہشام بن اسماعیل نے عبد الملک بن مروان کی طرف یہ مسئلہ لکھا،توانہوں نے جواب تحریر کیا کہ دونوں میں جدائی کروا دی جائے۔اگر ہم بستری ہو چکی ہو تو عورت کو مہر ملے گا اور اگر ہم بستری نہیں ہوئی تو یہ حکم اس کو سنا دیا جائے۔‘‘ ٭ اشعث،مشہور تابعی شعبی رحمہ اللہ کا یہ قول ذکر کر تے ہیں: ’’قال لا تنکح المرأۃإلا بإذن ولیہا فإن لم یکن لہا ولي فالسلطان…ولا ینکحہا ولیہا إلا باذنہا‘‘ ۵۵؎ ’’عورت اپنے ولی کی اجازت کے بغیر اپنا نکاح نہ کرے۔اگر اس کا ولی حیات نہ ہو تو حاکم کی اجازت کے بغیر… ایک اور جگہ مزید فرمایا کہ عورت کا ولی اس کی اجازت کے بغیر اس کا نکاح ہرگز نہ کرے۔‘‘ ٭ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اس مسئلے میں فرماتے ہیں: ’’عن أیوب فی إمرأۃلا ولي لہا ولت رجلا امرہا فزوجہا قال کان ابن سیرین یقول:لابأس بہ المومنون بعضہم أولیاء بعض وکان الحسن یقول:یفرق بینہاوإن أصابہاوإن لم یکن لہا ولی فالسلطان‘‘ ۵۶؎ ’’ایوب رحمہ اللہ سے ایسی عورت کے بارے میں روایت ہے جسکا نہ توکوئی ولی زندہ رہے اورنہ خود کسی آدمی کو اپنا ولی مقرر کر ے،تو ابن سیرین رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس میں کوئی مضائقہ نہیں کیونکہ مومن ایک دوسرے کے ولی ہیں اور حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ ان دونوں کے درمیان جدائی ڈال دی جائے گی باوجود یہ کہ خاوند ہم بستری کر چکا ہو۔کیونکہ اگر عورت کا ولی زندہ نہیں رہا تو پھر حاکم وقت اس کا ولی ہے،ہر آدمی ولی نہیں۔‘‘ ’’نکاح کے لئے ولی کا ہو نا ضروری ہے‘‘ فقہاء اربعہ کا مؤقف شافعیہ کا مسلک ٭ امام شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’فأی إمرأۃ نکحت بغیر إذن ولیہا فلا نکاح لھا لأن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال فنکاحھا باطل‘‘۵۷؎ ’’جس عورت نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر نکاح کیا اس کا کوئی نکاح نہیں،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بارے میں فرمایا ہے کہ اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘ شافعیہ کے امام ابوبکر بن محمد حسینی شافعی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ولا یصح عقد النکاح إلا بولي ذکر… فلا تصح عبارۃالمرأۃ فی النکاح إیجابا و قبولا تزوج نفسہا بإذن الولي ولا بغیر إذنہ ولا غیرھا بولایہ ولا بوکالہ للأخبار‘‘۵۸؎ ’’اور کوئی نکاح صحیح نہیں ہوتا مذکر ولی کے بغیر… پس نکاح کی عبارت میں عورت کی طرف سے ایجاب و قبول میں بھی کوئی اعتبار نہیں۔عورت ولی کی اجازت کے باوجود اپنا نکاح خود نہیں کرسکتی(بلکہ ولی ہی اس کا نکاح سرانجام دے گا۔۔‘‘ وضاحت عبارت کا مفہوم یہ ہے کہ ایجاب وقبول جو نکاح کا صیغہ(مخصوص قانونی لفظ)ہے اس میں لفظ ایجاب کا معنی ہی یہ ہے کہ ولی نکاح کے لئے لڑکی کی طرف سے اجازت کی پیش کش کرے اور شوہر لفظ ’قبول‘ کے ساتھ منظور کر لے تو نکاح منعقد ہو جائے گا۔مطلب یہ ہوا