کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 8
((ثلاثۃ حق اللّٰہ عونھم المجاھد فی سبیل اللّٰہ والمکاتب الذی یرید الاداء والناکح الذی یرید العفاف)) ۳۶؎ ’’تین بندوں کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔ایک تو اس مجاہد کی جواللہ کے راستے میں جہاد کرتا ہے،دوسرا اس غلام کی جو(آزادی کے لئے) طے شدہ رقم ادا کرنے کاارادہ رکھتا ہے اور تیسرے اس شخص کی جو پاکدامنی کی خاطر نکاح کرتا ہے۔‘‘ زنا کی حرمت پھر خاندان،کنبے اور معاشرے کو حسب ونسب کی حفاظت اور جنسی بے راہروی سے روکنے کے لیے زنا کو حرام قرار دے دیا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ سَائَ سَبِیْلًا﴾۳۷؎ ’’اور تم زنا کے قریب بھی نہ جاؤ بلا شبہ یہ بے حیائی اور بُرا راستہ ہے۔‘‘ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْاکُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃ جَلْدَۃٍ وَّلَا تَأخُذْکُمْ بِھِمَا رَأْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہ إِنْ کُنْتُمْ تُوْمِنُوْنَ بَاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخَرِ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَائِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْن﴾۳۸؎ ’’زنا کرنے والے مردوں میں سے ہرایک کو سو کوڑے لگاؤ اگر تم اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو پھر اللہ کے دین کے لیے ان دونوں(کو سزا دینے) کے معاملے میں کوئی نرمی تمہارے آڑے نہ آئے اور انہیں سزا دیتے وقت اہل ایمان کے ایک گروہ کو حاضر کرلو۔(تاکہ ان کی سزا دیکھ کر یہ بھی عبرت حاصل کریں)۔‘‘ واضح رہے کہ اگر زنا کاری کے مرتکب مرد وزن،شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا یہ ہے کہ انہیں پتھر مار مار کر قتل(رجم) کردیا جائے۔۳۹؎ اسلام ایک ایسا مذہب ہے جس نے خاندان اور نسب کیحفاظت کے لیے نکاح کو رواج دیا تاکہ زنا کا سدباب ہوسکے،نکاح کرنے کے لئے محرم عورتوں کے علاوہ کسی بھی قانون کا انتخاب کیا جا سکتا ہے وہ محرم خواتین اس آیت میں بیان کی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّھٰتُکُمْ وَبَنٰتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنٰتُ الْأَخِ وَبَنٰتُ الْأُخْتِ وَأُمَّھٰتُکُمُ الٰتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ………الخ﴾۴۰؎ ’’تم پر حرام کی گئی ہیں تمہاری مائیں،بیٹیاں،بہنیں،پھوپھیاں،خالائیں،بھتیجیاں،بھانجیاں اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تمہیں دودھ پلایا ہو اور تمہاری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری بیویوں کی مائیں اور تمہاری بیویوں کی بیٹیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہو۔ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن و شو ہوچکا ہو،(ورنہ اگر(صرف نکاح ہوا ہو اور) تعلق زن و شو نہ ہوا ہو تو(انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کرلینے میں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے اور تمہارے ان بیٹوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو۔مگر جو پہلے ہوگیا ہو،سو ہوگیا۔اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے اور وہ عورتیں بھی تم پر حرام ہیں جو کسی دوسرے کے نکاح میں ہوں۔‘‘ قرآن کریم میں نکاح کو ایک مقدس تعلق قرار دیا گیا ہے،جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿وَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا أَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُوْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ أَیْمَانُکُمْ مِنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤمِنٰتِ وَ