کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 64
2۔بلوغت گواہ میں دوسری چیزجوپائی جانی ضروری ہے وہ بلوغت ہے اورگواہ ایک قسم کا مسؤ ل ہوتاہے اوربچہ مسؤلیت کافریضہ ادانہیں کرسکتا۔چنانچہ گواہ کابالغ ہونا ضروری ہے۔ 3۔عقل نکاح وطلاق اسلام کے شعائرمیں سے ہے اور یہ بہت زیادہ حساس معاملہ ہوتاہے اوراس میں عقل کی بے حد ضرورت ہوتی ہے۔اورفاتر العقل کا ضبط ہی درست نہیں ہوتا اورجو آدمی کسی چیز کوضبط ہی نہ کرسکے ا س کا گواہ بننا اوراسے گواہ بنانا فضول ہے۔ 4۔تقویٰ گواہ کے لیے متقی اورپرہیزگار ہونا ضروری ہے وہ کبائر سے اجتناب کرتاہو اورصغائرپر اصرار نہ کرتاہو اوراس پر دلیل یہ ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے: ﴿یَاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَائَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَبَائٍ فَتَبَیَّنُوْا﴾۷۹؎ ’’اے ایمان والو!اگرتمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے توتم اس کی تحقیق کرلیاکرو۔‘‘ 5۔مروّت اخلاق کسی کوگواہ بنانے سے قبل اس بات کا خیال رکھیں کہ اس آدمی کے اندر اخلاقیات کا پہلو کہاں تک غالب ہے یہ عادات واطوار کے لحاظ سے کیساہے۔یہ لوگوں کے ساتھ معاملہ کیسے کرتاہے اوراس آدمی میں اسلامی تعلیمات کہاں تک سرایت کرچکی ہیں اگر ان تمام چیزوں میں اسلامی پہلو غالب ہو توایسا آدمی گواہ بننے کا اہل ہے۔ عورت نکاح نہیں پڑھا سکتی اگر اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تونکاح پڑھانا مرد کے ذمہ ہے عورت کے ذمہ نہیں اورنہ ہی عورت کا پڑھا یا ہوا نکاح اسلام کی رو سے جائز ہے جیساکہ درج ذیل دلائل سے ثابت ہے۔ 1۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لاتزوج المرأۃ المرأۃ ولاتزوج المرأۃ فإن الزانیۃ ہی التی تزوج نفسہا‘‘۸۰؎ ’’کوئی عورت کسی کی شادی کرے اورنہ کوئی عورت اپنا نکاح خودکرے اورجوعورت خود اپنا نکاح کرتی ہے وہ زانیہ ہے۔‘‘ 2۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے بھائی کے بیٹوں میں سے ایک بیٹے کے نکاح کا بندوبست کیا اور(غیرمتعلقہ غیر محرم افراد سے)پر دہ کی اوٹ میں ہوکر بات چیت طے کی۔یہاں تک کہ جب عقد نکاح کے علاوہ دیگر تمام کام نمٹ گئے توانہوں نے ایک مرد کونکاح پڑھانے کا حکم دیا اوراس نے نکاح پڑھادیا توحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’لیس إلی النساء نکاح‘‘۸۱؎ ’’عورت کی طرف سے نکاح نہیں ہوتا۔‘‘