کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 62
حسن ہونے کومتقاضی ہے۔شیخ ناصرالدین البانی رحمہ اللہ نے نہ صرف خطبہ سے متعلق روایات کومجموعی طور پر صحیح قرار دیا ہے بلکہ انفرادی طور پر بھی بعض روایات پر صحت کا حکم لگایا ہے مزید تفصیل کیلئے علامہ البانی رحمہ اللہ کاکتابچہ بعنوان ’’خطبۃ الحاجۃ التی کان رسول اللّٰہ یعلمہا الصحابۃ ‘‘ملاحظہ کیا جاسکتاہے۔مذکورہ خطبہ موصوف کا ثابت کردہ ’’نص الخطبہ ہے۔
ایجاب وقبول کاطریقہ
نکاح پڑھانے والا خطبہ مسنونہ پڑھنے کے بعد دلہے اورگواہوں اورلڑکی کے ولی کی موجودگی میں اس طرح کہے گا کہ میں فلاں بنت فلاں(لڑکی کاپورا نام لے)کا نکاح اس کے ولی کی اجازت ورضامندی سے فلاں بن فلاں کا(لڑکے کاپورا نام لے )کے ساتھ ان گواہوں کی موجودگی اوراتنے حق مہر کے عوض۔(جوبھی مہر مقرر کیاگیا ہو اسے بیان کرتے ہوئے )کرتاہوں پھر لڑکے کی طرف متوجہ ہوکرپوچھے ’’کیا آپ کویہ نکاح قبول ہے ؟‘‘تودولہا کے قبول کرنے سے نکاح ہوجائے گا۔
البتہ لڑکی سے ایجاب قبول کی ضرورت نہیں کیونکہ اسکی وکالت اسکا ولی کررہاہے یاد رہے کہ ایجاب و قبول کایہی جملہ سب سے اہم اور ضروری ہے اس لیے نکاح سے پہلے کسی کاغذ پر لڑکی اور لڑکے کا پورا نام اور مہر کی تفصیل لکھ لیں تاکہ ایجاب و قبول کراتے وقت کوئی غلطی نہ ہو۔
بغیر خطبہ کے نکاح
یادرہے کہ اگر خطبہ نہ بھی ہو تونکاح درست ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ بنی سلیم کے ایک آدمی سے مروی ہے کہ میں نے ایک عورت کے لیے پیغام نکاح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کودیاجس نے اپنا نفس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کونکاح کے لیے پیش کیا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کوفرمایا ’’میں نے تمہارے پاس موجود قرآن کے عوض تیرا اس سے نکاح کردیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ نہ پڑھا۔‘‘۷۳؎
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں سفیان ثوری رحمہ اللہ اوردیگر علماء کرام کاقول نقل کیا ہے۔
’’ان النکاح جائز بغیر خطبۃ‘‘
’’خطبہ کے بغیر نکاح ہوجاتاہے اورایسا عمل کرنا جائزہے۔‘‘
اس قول کونقل کرنے کے بعد امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض اہل علم نے نکاح میں خطبہ کی شرط لگائی ہے۔لیکن یہ قول شاذہے۔۷۴؎
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے فتح الباری میں لکھاہے:
’’وفیہ أنہ لا یشترط فی صحۃ العقد تقدم الخطبۃ‘‘
’’کہ نکاح اورعقدکی صحت کے لیے نکاح سے قبل خطبہ پڑھنے کی شرط نہیں لگائی(یعنی خطبہ نکاح نکاح کی صحت ورقم پر کوئی اثر نہیں رکھتا اتناضروری ہے کہ یہ مندوب ہے۔‘‘۷۵؎
اس کی حکمتیں
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’دورجاہلیت میں لوگ نکاح سے پہلے خطبہ دیتے تھے اوراس سے پہلے اپنی قوم کے فخریہ قصے وغیرہ بیان کرتے۔اسے وہ اپنے مقصد اوراظہار فخر کاذریعہ بناتے۔اس طریقہ کااجراء بھی ایک مصلحت تھا کیونکہ خطبہ کی بنیاد تشہیر پر ہے تشہیر یہ ہے کہ نکاح کوسب لوگوں