کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 45
﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنَ النِّسَائِ مَثْنٰی وَ ثُلَاثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً﴾۱۳؎
’’جو عورتیں تمہیں پسند آئیں،ان میں سے دو دو تین تین اور چار چار سے نکاح کرلو،لیکن اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ ان کے ساتھ عدل نہ کر سکو گے تو پھر ایک ہی بیوی کرو۔‘‘
مذکورہ بالا دونوں آیات میں ہم جنس سے تعلق نکاح کی مذمت کی گئی ہے اورمخالف جنس سے نکاح کی ترغیب دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا اس فطری قانون کو تسلیم کرنے پر مجبور ہے اس سے برعکس معاملہ غیر فطری ہے لہٰذا انہی دنوں امریکہ میں ایسے بل کا مسودہ تیار کر لیا گیا ہے کہ نکاح لازماً دو مختلف جنسوں کے مابین ہی ہونا چاہئے۔یہ بل جلد ہی سینٹ سے پاس کروا لیا جائے گا۔۱۴؎
٭ نکاح صرف غیر محرم سے ہوسکتاہے جبکہ معاہدہ اس قید سے مبرا ہے
﴿حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ أُمَّھٰتُکُمْ وَبَنَاتُکُمْ وَأَخَوَاتُکُمْ وَعَمّٰتُکُمْ وَخٰلٰتُکُمْ وَبَنَاتُ الأَْخِ وَ بَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّھٰتُکُمْ الّٰتِیْ أَرْضَعْنَکُمْ وَأَخَوٰتُکُمُ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَأُمَّہٰتُ نِسَائِکُمْ وَرَبَائِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَائِ کُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَإِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِہِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِکُمْ الَّذِیْنَ مِنْ أَصْلَابِکُمْ وَأَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الأُخْتَیْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللّٰہ کَانَ غَفُوْرًارَّحِیْمًا﴾۱۵؎
’’تم پر حرام کی گئی تمہاریں مائیں،بیٹیاں،بہنیں،پھوپھیاں،خالائیں،بھتیجیاں،بھانجیاں،اور تمہاری وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہو،اور تمہاری دودھ شریک بہنیں،تمہاری بیویوں کی مائیں،اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے۔ان بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلق زن وشو ہو چکا ہو۔ورنہ اگر(صرف نکاح ہوا ہو اور ) تعلق زن وشو نہ ہوا ہو تو(انہیں چھوڑ کر ان کی لڑکیوں سے نکاح کر لینے ہیں) تم پر کوئی مواخذہ نہیں ہے۔اور تمہارے ان بیٹیوں کی بیویاں جو تمہاری صلب سے ہوں،اور یہ بھی تم پر حرام کیا گیا ہے کہ ایک نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرو،مگر جو پہلے ہو گیا سو ہو گیا،اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت کا ماحاصل یہ ہے کہ نکاح کوئی عام معاہدہ نہیں جو صرف فریقین کی رضا مندی کے بعد استوار کیا جاسکتا ہو اگر ایسا ہوتا تو ماں اور بیٹے،باپ اور بیٹی کے درمیان بھی جائز ہوتا حالانکہ ایسا کسی مذہب میں بھی جائز نہیں۔اسلام میں سترہ رشتے ایسے ہیں جن کا آپس میں نکاح حرام ہے۔۱۶؎
٭ خفیہ نکاح کرنا منع ہے جبکہ معاہدہ خفیہ بھی ہوسکتا ہے۔
موطا امام مالک میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ درج ہے:
’’ ان عمر رضی اللّٰہ عنہ بن الخطاب أتی بنکاح لم یشہد علیہ إلا رجل وامرأۃفقال ہذا نکاح السر ولا اجیزہ ولو کنت تقدمت فیہ لرجمت‘‘۱۷؎
اوراسی طرح ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہ اپنے نکاح کا واقعہ بیان کرتی ہیں:
’’فجعلت جویریات لنا یضربن بالدف ویند بن من قتل من آبائی یوم بدر إذ قالت احداھن:وفینا نبی یعلم ما فی غد فقال:دعی ھذہ وقولی بالذی کنت تقولین‘‘ ۱۸؎
’’چھوٹی چھوٹی بچیاں دف بجانے لگیں اور بدر کے دن شہید ہونے والے آباؤ اجداد کی تعریف کرنے لگیں۔اچانک ایک بچی نے کہا:ہم