کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 4
الحیوان ونحوہ قیدہ وأسر فلانا اخذہ اسیرا ‘‘
ابن فارس،اسیر کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سمی الأسیر اسیرا لأنہ یوثق۔۔۔عادہ۔۔۔وکانوا یشدونہ بالقد وھو الأسار فسمی کل اخیزو إن لم یؤسر اسیرا ‘‘۱۰؎
لسان العرب میں ہے:
’’والأسر‘‘ احتباس البول واسر بولہ اسرا احتبس والإسم الأَسر والأُسر،وفی حدیث ابی الدرداء ان رجلا قال لہ ان ابی اخذہ الأسر یعنی احتباس البول ‘‘ ۱۱؎
مذکورہ بالا عبارات کامقصود یہ ہے کہ ’’الأسر ‘‘مادے اوراصل کے اعتبارسے مختلف معانی میں استعمال ہوتاہے۔
1۔ خاندان 2۔قیدی 3۔کسی چیزکوپوشیدہ رکھنا 4۔مضبوطی اورپختگی 5۔ترتیب وتنظیم
مذکورہ تمام معانی میں سے ہمارا مقصود خاندان ہے جس کے لئے ’’الاسرۃ ‘‘کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
قرآن مجید کی حسب ذیل آیات میں یہ مادہ مختلف معانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔
﴿فَرِیْقًا تَقْتُلُوْنَ وَتَاْسِرُوْنَ فَرِیْقًا﴾۱۲؎
’’کہ ایک فریق کوتم قتل کرتے ہو اورایک کوتم قیدی بنالیتے ہو۔‘‘
﴿وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلَی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَیَتِیْمًا وَأَسِیْرًا ﴾۱۳؎
’’اوروہ مساکین،یتامیٰ اورقیدیوں سے محبت کرتے ہوئے ان کوکھانا کھلاتے ہیں۔۔‘‘
﴿مَاکَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَکُوْنَ لَہُ اَسْرٰی حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْأَرْضِ﴾۱۴؎
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ جائز نہیں کہ ان کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ ان کا خون بہا دیاجائے۔‘‘
﴿یَأیُّھَاالنَّبِیُّ قُلْ لِمَنْ فِیْ أَیْدِیْکُمْ مِنَ الْأَسْرٰی ﴾۱۵؎
’’اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم،تم لوگوں کے قبضہ میں جو قیدی ہیں ان سے کہو ‘‘
﴿وَإِنْ یَأْتُوْکُمْ أُسٰرٰی تُفٰدُوْھُمْ وَھُوَ مُحَرَّمٌ عَلَیْکُمْ إِخْرَاجُہُمْ ﴾۱۶؎
’’اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں،تو ان کی رہائی کے لئے فدیہ کا لین دین کرتے ہو،حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا۔‘‘
’’الأسرۃ ‘‘کے مترادفات
العائلہ
’’العائلہ ‘‘اسم فاعل بمعنی مفعول ہے اورعائلہ عربی میں کہاجاتاہے
’’من یعولھم الشخص من یضھم بیت الرجل وینفق علیھم من زوجہ وأقارب ‘‘۱۷؎
یعنی آدمی جن کی طرف لوٹ کرجاتاہے اوران سے ملاقات کرتاہے اوراپنے عزیزواقارب میں سے جن پرخرچ کرتاہے اسے عائلہ کہا جاتا ہے۔