کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 358
تمہارے لیے حلال کردیا گیاہے بشرطیکہ حصار نکاح میں ان کو محفوظ رکھو۔نہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو پھر جو ازدواجی زندگی کا لطف تم ان سے اٹھاؤ اس کے بدلے میں ان کے مہربطور فرض کے ان کواداکرو البتہ مہر کی قرارداد ہو جانے کے بعد آپس کی رضامندی سے تمہارے درمیان اگر کوئی سمجھوتا ہو جائے تو اس میں کوئی حرج والی بات نہیں ہے اللہ تعالیٰ علیم اور دانا ہے او رجو شخص تم میں سے اتنی قدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں(محصنات ) سے نکاح کرسکے اسے چاہیے کہ تمہاری ان لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کرلیے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اورمومنہ ہوں اللہ تمہارے ایمانوں کوخوب جانتا ہے تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو لہٰذا ان کے سرپرستو ں کی اجازت سے ان کے مہر ادا کردو تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ(محصنات )ہو کر رہیں آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں او رنہ چوری چھپے آشنائیاں کریں۔اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام میں کسی قسم کی غیر قانونی اور خفیہ جنسی تعلقات سختی سے منع کیے گئے ہیں نئی نسل کی تربیت اورعورتوں کے حقوق کا تحفظ ایسے دو پہلو ہیں جن پر اسلام کے معاشرتی نظام میں بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔اسلام غیر قانونی تعلق کو ایک ایسا اذیت ناک وسیلہ سمجھتا ہے جو بچوں کو مشکوک حسب ونسب عطا کرتا ہے اس صورت میں بچے کی پیدائش کے بعد معاشرے میں تمام ذمہ داری عورت پر ہے جس سے توقع کی جاتی ہے کہ بحیثیت اکیلی ماں ایسے بچوں کی تربیت کرے گی پھر ایسے بچوں کا مستقبل غیر مستحکم تعلقات میں بسر ہوناشروع ہو جاتا ہے اوراس طرح کا ایک چکر چلتا رہتا ہے اسلام ایک مرد اور عورت کے تمام جنسی تعلقات کو اس کے اپنے نکا ح کے ساتھ تک محدود کرتا ہے ایسے تعلقات کو خود اپنے خاندان کے بہت قریبی رشتہ داروں کے درمیان ممنوع قراردیتا ہے اس کے نظام میں تمام تعلقات کی بنیاد تقوی اور خدا ترسی ہے خاندان سے باہر غلط طریقے سے تکمیل خواہشات کے تمام رابطوں پر پابندی لگانے کے لیے اسلام پاکدامنی،حجاب،نگاہو ں کو نیچا رکھنے اور روزے رکھنے پر زور دیتا ہے۔اور اشتراکیت عمل کا ایسا مرکز ہے جہاں آنے والی نسلوں میں درست دینی علوم اوراعلیٰ اقدار راسخ کی جاتی ہیں۔یہ بات شک وشبہے سے بالاہے کہ خاندان میں قیادت اورسرپرستی مردوں کو سونپی گئی ہے لیکن یہ خاندان کے افراد کی معاشی امداد کے ساتھ ساتھ اضافی ذمہ داریاں ہیں نہ کہ وسیع اختیارات کامطلق العنان منبع ومصدر۔اسی طرح یہ حقیقت تسلیم کرنے کے باوجود کہ عورتوں کا دائرہ کار گھر کے کاموں اور بچوں کی نگہداشت ہی ہے اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ عورتیں خاندان کی ساخت میں ایک گھٹیا اکائی یا کم درجے کے وجود ہیں اللہ تعالیٰ کی نظر میں مردوں اور عورتوں کے حقوق برابر ہیں تاہم مردوں کو عورتوں پر ایک درجہ بڑائی سے پیدا کرنے کا مقصد اس پر اضافی ذمہ داریاں ڈالنا ہے نہ کہ انہیں اضافی حقوق سے نوازنا ہے خاندان کو ایک چھوٹے درجے کی جمہوریت سمجھنا چاہیے تاکہ یہ جمہوریت ملک کے سیاسی نظام میں بڑے درجے پراپنا درست عکس دکھاسکے۔مردوں کے قوام ہونے کادرجہ ایک جابر،ظالم،اورمنہ زور ڈکٹیٹر کے مترادف بن جانے کے لیے نہیں دیا گیا کہ اپنے خاندان کی عورتوں سے بلاکسی چوں چر ا کے فرماں برداری کامطالبہ کریں۔ آج تک اسلام کاتصور خاندان کسی تنازعے کی وجہ نہیں بنا اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلقات کی تعیین کے بارے اس کے عام اصولوں کو وسیع مسلم معاشروں میں قبول کیا گیا۔اورمسلمان گھرانوں میں ان کا مؤثر نفاذ کیاگیا ہے تاہم معاصر دنیا میں سوالات اٹھائے گئے وہ یاتو ان اصلاحی تعلیمات سے عدم واقفت کی وجہ سے ابھرے ہیں۔یا پھر کچھ برائے نام مسلمان لوگوں کے رویوں کو اتنی اہمیت دی گئی ہے کہ بے خبری میں انہیں اسلامی تعلیمات کے مترادف سمجھ لیا گیا ہے۔اس طرح وہ لوگ جو خاندان کے بارے میں اسلام کی حقیقی تعلیمات سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں انہوں نے ان گھرانوں میں عورتوں کے ساتھ زیادتیوں کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام پر الزامات لگانے شروع کردیئے ہیں۔