کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 356
سیلاب آتا تھا تو دائیں بائیں سے کترا کر نکل جاتا تھا۔وہیں مسجدالحرام کے بالائی حصے میں زمزم کے پاس ایک بہت بڑا درخت تھا۔آپ نے اسی درخت کے پاس حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل کو چھوڑا تھا۔اس وقت مکہ میں نہ پانی تھااورآدم اورنہ آدم زاد۔ اسی بات کومحمدعبداللہ المعبود’’تاریخ مکہ ‘‘میں اس اندازمیں بیان کرتے ہیں: حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی رفیقہ حیات اورفرزنددل بندکوزم زم والی جگہ پرایک درخت کے نیچے بٹھادیا اوراستراحت کرنے کی تلقین فرماتے ہوئے واپس چل پڑے۔ اس وقت تک وہاں نہ کوئی انسانی آبادی تھی۔اور نہ ہی پانی کا کوئی نام و نشان پایا جاتا تھا اور نہ زندگی کی بقا کا کوئی ظاہری وسیلہ نظر آتا تھا۔ ’’لیس بمکۃ یومئذ احد ولیس بہا انسان ‘‘۳؎ مولانا صفی الرحمٰن رحمہ اللہ لکھتے ہیں: اس لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک توشہ دان میں کھجور اور ایک مشکیزہ میں پانی رکھ دیا۔اور اس کے بعد فلسطین واپس چلے گئے لیکن چند ہی دنوں میں کھجور اور پانی انتہاء کو پہنچ گیا،اور سخت مشکل پیش آئی لیکن اس مشکل وقت پر اللہ کے فضل سے زمزم کا چشمہ پھوٹ پڑا اور ایک عرصہ تک کے لیے سامان رزق اور متا ع حیات بن گیا۔۴؎ الرحیق المختوم میں ہے: کچھ عرصے بعد یمن سے ایک قبیلہ آیا جس کو تاریخ میں جرہم ثانی کہا جاتا ہے۔یہ قبیلہ حضرت اسماعیل کی ماں سے اجازت لے کر مکہ میں ٹھہر گیا۔کہا جاتا ہے کہ یہ قبیلہ پہلے مکہ کی گردوپیش کی وادیو ں میں سکونت پذیر تھا۔صحیح بخاری میں اتنی صراحت موجود ہے کہ(رہا ئش کی غرض سے)یہ لوگ مکہ میں حضرت اسماعیل کی آمد کے بعد اس وادی سے ان کا گزر اس سے پہلے بھی ہوا تھا۔۵؎ قبیلہ بنو جرہم کی جس خاتون سے آپ کا عقد ہوا تھا اس کا نام علامہ مطب الدین نے عمارہ بنت سعید بن اسامہ بن اکیل تحریر کیا ہے۔۶؎ جیکہ علامہ مسعودی نے الجدا بنت سعد بیان کیا ہے۔۷؎ علامہ مسعودی رقمطراز ہیں: ’’سیدنا اسماعیل علیہ السلام کی پہلی بیوی کا نام الجدا بنت سعد تھا۔ان کی بیان کردہ روایت کے مطابق جب سیدنا ابراہیم علیہ السلام تشریف لائے تو سلام پیش کیا مگر بہو نے سلام کا جواب نہ دیا آپ نے دریافت کیا کہ تو جواب ملا کہ وہ روزی کی تلاش کے لیے گئے ہوئے ہیں جب حضرت اسماعیل علیہ السلام آئے تو بیوی نے کہا کہ ایک آدمی ابراہیم نامی آیا تھا جو آ پ کی والدہ ہاجرہ کے متعلق دریافت فرمارہا تھا آپ نے دریافت کیا کہ پیغام وغیرہ نہیں دیا تو اس نے کہا وہ کہہ گئے تھے کہ گھر کی چوکھٹ بدل لینا۔۸؎ محمدعبداللہ المعبود تاریخ مکہ میں لکھتے ہیں کہ عمارہ کی علیحدگی کے بعد سیدنا اسماعیل نے اس قبیلہ سے ایک دوسری عورت سیدہ بنت مضاض بن عمرو جرہمی سے عقد کیا۔زاد المسیر میں لکھا ہے: حضرت اسماعیل کی دوسری بیوی جن کانام السیدہ بنت مضاض بن عمرو جرہمی تھا،ان سے آپ کا خاندان تشکیل پایا اوراس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حسب ذیل اولاد عطا فرمائی۔نابت،قیدار،واصل،میاس،آزر،طیما،نبش،۹؎ گویا سیدنا اسماعیل کے حوالے سے گفتگو اور بحث کا مقصد یہ ہے کہ خاندان اس طرح تشکیل پاتے ہیں جس طرح حضرت اسماعیل کا خاندان قبیلہ جرہم کی ایک دو شیزہ سے شادی ہونے کے بعد تشکیل پایا اور اس سے ایک نہیں کئی معاشرے وجود میں آئے جو عصر حاضر میں