کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 334
آبسے تو ہندوؤں کی بہت سی روایات اور رسومات جو ان میں ’’ہندوستان‘‘ میں رچ بس گئی تھیں وہ اسی طرح پاکستان میں رواج پاگئیں جن میں سے ایک روایت جہیز بھی ہے۔ ہندوؤں کا طریقے کار یہ تھا کہ جب اپنی لڑکیوں کی شادی کرتے تو جتنا مال و متاع اور سازوسامان ان کی ہمت ہوتی وہ انہیں دیتے اور اس کے بدلے میں ان کو وراثت سے محروم رکھتے اور ہندو اسے ’’کنیادان‘‘(لڑکی کے لیے خیرات) کا نام دیتے اور مسلمان اسے جہیز کا نام دیتے ہیں۔حقیقت حال ایک ہی ہے۔ عصر حاضر میں یہ روایت مسلمانوں میں اس قدر سرایت کرگئی ہے۔وہ اسے مستحب خیال کرتے ہیں اور حجت پر پیش کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو جہیز دیا تھا۔۳۳؎ حالانکہ یہ جہیز نہیں یہ مہر معجل(ایڈوانس مہر) تھا۔جس کی صراحت حضرت علیt فرماتے ہیں۔ ((تزوجت فاطمہ فقلت یا رسول اللّٰہ!ابن بی قال اعطھا شیأً قلت ما عندی من شی قال فاین درعک الحطمیۃ قلت ھی عندی قال فاعطھا أیاہ)) ۳۴؎ ’’میں نے جب فاطمہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کی رخصتی کا تقاضا کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اسے(بطور مہر) کچھ دو میں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تمہاری وہ حطمی زرہ کہاں ہے؟ میں نے کہا ہاں،وہ تو میرے پاس موجود ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ(بطور مہر) فاطمہ کو دے دو۔‘‘ مکلاوے کی روایت مکلاوے کی روایت ہماری اپنی گھڑی ہوئی اور رواج دی ہوئی ہے۔نہ اس کا کوئی قرآن و سنت سے ثبوت ملتا ہے نہ آثار صحابہ اور تابعین سے ملتا ہے اگر ثبوت ملتا ہے تو اس کے عدم کاملتا ہے۔اس روایت کے ھدم اور ختم کرنے کے لیے ہمیں سید التابعین امام سعید بن مسیب کی طرف رجوع کرناہوگا۔حلیۃ الاولیاء اور سیر اعلام النبلاء میں ہے: امام سعید بن المسیب سے ان کی بیٹی کا رشتہ خلیفہ عبدالملک نے اپنے بیٹے ولید کے لیے طلب کیا۔امام موصوف نے رشتہ دینے سے انکار کردیا اور اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے شاگرد کثیر بن المطلب بن ابی وداعہ سے کردیا۔۳۵؎ کثیر بن المطلب بن ابی وداعہ کا بیان ہے: ’’میں اپنے استاد سعید بن المسیب کے پاس بیٹھا کرتاتھا۔مجھے کوئی معاملہ لاحق ہوگیا تو کافی ایام میں ان کی کلاس کی حاضری سے قاصر رہا پھر ایک دن میں اپنے استاد کی مجلس میں حاضر ہوا تو انہوں نے مجھے سے سوال کیا،کہاں تھے میں نے بتایا کہ میری اہلیہ کا انتقال ہوگیا تھا تو استاد محترم نے فرمایا کیا نئی عورت سے شادی کی ہے کہا مجھے کون رشتہ دے گا۔میں صرف دو یا تین درہم کی ملکیت رکھتا ہوں اس پر امام سعید المسیب نے فرمایا آپ کو رشتہ میں دوں گا۔اور دو یا تین درہموں کے عوض مجھ سے نکاح کردیا۔میں گھر گیااور سوچتا رہا کیا کروں تو اچانک دروازہ کھٹکا میں نے دیکھا تو میرے استاد سعید بن المسیب تھے اور ان کے ہمراہ ان کی بیٹی تھی تو انہوں نے فرمایا یہ آپ کی بیوی ہے… میں ایک ماہ کے بعد امام صاحب کی مجلس میں حاضر ہوا تو جب تمام طلباء جاچکے میں بیٹھا رہا تو مجھ سے سعید بن المسیب نے فرمایا وہ انسان کیسا پایا۔کہا:بہت اچھا،فرمایا اگر وہ غلطی کرے تو لاٹھی سے سیدھا کرو۔‘‘ ۳۶؎