کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 332
دُلہا کے والدین اور عزیز و اقارب کادُلہن کے ہاں ’’بِد‘‘ اور ’’بَری‘‘ لے کر جانا ’’بِد‘‘ ان خشک میوہ جات جو چھوہاروں،باداموں،گری اور میٹھی اشیاء یعنی پتاسے،مکھانے وغیرہ پر مشتمل چیزوں کا نام ہے جو لڑکے والے دلہن کے گھر بارات کے ساتھ لے کر جاتے ہیں اور یہ کم از کم ۲۱ کلوگرام وزن پر محیط ہوتی ہے۔جس میں سے چند کلوگرام دلہن کے گھر والے دلہے کے گھر والوں کو واپس کردیتے ہیں اور باقی اپنے اہل خانہ میں تقسیم کرتے ہیں اور ’’بَری‘‘ اس روایت کا نام ہے جو لڑکے کے اہل خانہ لڑکی اور دلہن کے لیے ملبوسات،جوتیاں،میک اَپ کاجدید ترین سامان ایک بکس میں بند کرکے اپنے نائی کے حوالے کرتے ہیں اور وہ بارات کے ساتھ جاتا ہے۔اور یہ بَری کا سامان اس کی حفاظت میں ہوتا ہے،یاد رہے کہ یہ سامان دلہن کی ۲۱ جوتوں،۲۱ سوٹوں اور دیگر قیمتی میک اَپ کے سامان پر مشتمل ہوتا ہے اور یہ ’’بَری‘‘ کی ریاکاری سے قبل ارد گرد محلے کے گھروں میں اطلاع دی جاتی ہے اور پھردلہے کی بہنیں اور عزیز عورتیں لوگوں کے سامنے نمائش کرتی ہیں۔شریعت اسلامیہ تحائف کو تو مستحسن قرار دیتی ہے لیکن مذکورہ بالا روایات اوررسم و رواج کااس میں کوئی ثبوت نہیں اور شریعت اسلامیہ اس طرح کی روایات کو فضولیات قرار دیتی ہے۔ نیوندرا کی روایت پاکستان بلکہ برصغیر پاک و ہند کے باشندے نیوندرا کی روایت سے منسلک نظر آتے ہیں۔نیوندرا کی روایت اور رسم کو ’’بیوتہ بازی‘‘ بھی کہا جاتا ہے اس روایت کی وضاحت اس طرح سے ہوسکتی ہے کہ ولیمہ کے دن جن لوگوں کودعوت ولیمہ پر شریک ہونے کا موقع ملتاہے اس سے روپے وصول کئے جاتے ہیں اور یہ کام پورے ڈسپلن کے ساتھ ہوتا ہے کہ نیوندرا وصول کرنے والوں کے پاس ایک رجسٹر ہوتا ہے جو روپے دیتاہے ان کو لکھ لیاجاتاہے اور جب نیوندرا دینے والے کی یا اس کی اولاد یابھائی کی شادی ہوتی ہے تو موجودہ دعوت ولیمہ میں نیوندرا وصول کرنے سے دوگنا یا برابر کانیوندرا کامطالبہ کیاجاتاہے جس کی عدم ادائیگی کی صورت میں نوبت لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے۔ اس روایت کو رواج دینے کے لیے اور اس سے عدم موافقت رکھنے والوں کو مطمئن کرنے کے لیے کہا جاتا ہے کہ باہمی تعاون کا ذریعہ ہے حالانکہ شریعت مطہرہ اس کی تائید سے پاک ہے بلکہ ناجائز قرار دیتی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿فَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرْ﴾۲۹؎ ’’تم اس نیت سے احسان نہ کرو کہ تم زیادہ طلب کرسکو‘‘ دودھ پلائی اور سربالہ کی روایت سربالہ اور دودھ پلائی کی روایات برصغیر پاک و ہند میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے میل جول کی بنا پرفروغ پاگئی ہیں اور اب مسلمانوں کا شاید ہی کوئی گھرانہ ایسا ہو جو ان روایات کاشکار نہ ہو۔ ہندو معاشرے میں دلہے کے ساتھ شادی کے دن مختلف شرارتیں کی جاتی تھیں۔مثال کے طور پر ٹوٹی ہوئی چارپائی پر چادر بچھا کر دلہا کوبیٹھنے کے لیے کہا جاتا اور جب دلہا اس چارپائی پر بیٹھنے کی کوشش کرتا گر جاتا جس سے دلہا اوردلہن کے عزیز و اقارب ہنس پڑتے اور دلہا کو شرمندہ ہونا پڑتا یادلہا کودودھ پلانے کے لیے اس کی سالیاں منصوبہ بندی کرتیں کہ دودھ میں بہت زیادہ نمک ملادیتی یا دودھ میں رکھا ہوا پائپ درمیان سے کسی چیز سے بند کردیتیں جس سے دلہا کو ندامت اٹھانی پڑتی۔ان قبیح حرکات سے اجتناب کے لیے ’’سربالہ‘‘(یعنی دلہے کا محافظ) کی روایت کو رواج دیا گیا شریعت مطہرہ سے ایسی قبیح روایات کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔