کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 319
صلہ رحمی کے حوالے سے چند گزارشات ہمیں اپنے تمام رشتہ داروں کے ساتھ اپنے معاملات پر ایک نظر ڈالنی چاہئے۔اس سے ہمیں اندازہ ہوجائے گا کہ کن کے ساتھ صلہ رحمی اور کن کے ساتھ قطع رحمی کامعاملہ چل رہا ہے۔اگر ہمیں کسی خرابی کا علم اور احساس ہی نہ ہوگا تو اس کی اصلاح کیسے ممکن ہے؟ جب ہمیں ناراض لوگوں کا پتہ چل جائے تو ان سے صلہ رحمی کرنے کے طریقے سوچیں اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں،وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔کیونکہ اسی کے ہاتھ میں تمام لوگوں کے دل ہیں اور وہ دلوں کو پھیرنے والا ہے۔جو لوگ ہم سے راضی ہیں،وہ تو خوش ہیں ہی۔ناراض لوگوں کو منانا اصل کام ہے۔فرمانِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رہنمائی کررہا ہے: عن أبي ہریرۃ أن رجلاً قال:یا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إن لي قرابۃ أصلھم ویقطعوني وأحسن الیھم ویسیؤن إلي وأحلم عنھم ویجھلون علي فقال صلی اللّٰه علیہ وسلم:لئن کنت قلت فکأنما تسفھم الملّ ولا یزال معک من اللّٰہ ظھیر علیھم ما دمتَ علی ذلک)) ۶۵؎ ’’ابوہریرہ رضی اللہ ع نہ روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اورکہا:میرے کچھ رشتہ دار ہیں،میں ان سے صلہ رحمی کرتاہوں اور وہ قطع رحمی کرتے ہیں۔میں ان سے احسان کرتا ہوں اور وہ میرے ساتھ برائی کرتے ہیں۔میں ان سے بُردباری سے پیش آتاہوں اور وہ میرے ساتھ جہالت کا معاملہ کرتے ہیں۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اگر معاملہ تمہارے کہنے کے مطابق ہو تو جب تک تم ایساکرتے رہو گے،تب تک ان کے خلاف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک مددگار تمہارے ساتھ رہے گا۔‘‘ ایک اور حدیث ِطیبہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لیس الواصل بالمکافي ولکن الواصل الذي إذا قطعت رحمہ وصلھا)) ۶۶؎ ’’ برابربدلہ دینا صلہ رحمی نہیں ہے،صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے کہ جب قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ احسان کا بدلہ احسان کے ساتھ دینا یا ملنے والوں سے ملنا تو مکافات کہلاتا ہے اور روٹھوں کو ملانا صلہ رحمی ہے۔ اس حوالے سے یہ حدیث ِطیبہ بھی غلط فہمی کو دور کرتی ہے جس میں آپ نے فرمایا: ((المؤمن الذي یخالط الناس ویصبر علی أذاھم أعظم أجرًا من المؤمن الذي لا یخالط الناس ولا یصبر علی أذاھم)) ۶۷؎ ’’وہ مسلمان جو لوگوں سے ملتا جلتا ہے اور ان کی طرف سے آنے والی تکلیفوں پر صبر کرتاہے،ایسے مسلمان سے بہتر ہے جو نہ لوگوں سے ملتاہے اور نہ ان کی تکلیفوں پر صبرکرتاہے۔‘‘ حتیٰ کہ کسی کا مذہب اور عقیدہ بھی صلہ رحمی میں حائل نہیں ہونا چاہئے۔واقعہ افک میں سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بھانجے حضرت مسطح بھی منافقین کے بہکاوے کا شکار ہوگئے تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے ناراض ہوکر ان کی مالی امداد بند کردی۔اللہ تعالیٰ نے حسن سلوک کے ترک کرنے کو اعلیٰ اقدار کے منافی قرار دیا اور برائی کا بدلہ اچھائی سے دینے کی تلقین فرمائی اور ایسا کرنے پر مغفرت کی خوشخبری سنائی: ﴿اَلاَتُحِبُّوْنَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہ لَکُمْ﴾۶۸؎ ’’کیا تم پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں معاف فرما دیں۔‘‘ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب یہ آیت ِمبارکہ سنی تو جواب دیا:بلیٰ یا ربنا إنا نحب ’’کیوں نہیں!اے ہمارے ربّ یقیناً ہم پسند کرتے ہیں۔‘‘ واقعۂ اِفک نبوی اور صدیقی گھرانے کے لیے کوئی معمولی واقعہ نہ تھا،اس کے باوجود صلہ رحمی اور احسان کا طرزِ عمل اختیار کرنے کی ہی تلقین کی گئی ہے۔