کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 313
صلہ رحمی کے بارے علماء عظام و مفسرین کرام کے اقوال و آثار 1۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ((تعلموا انسابکم ثم صلوا ارحامکم،واللّٰه إنہ لیکون بین الرجل و بین أخیہ شئ،ولو یعلم الذی بینہ و بینہ من داخلۃ الرحم لاوزعہ ذلک عن انتھاکۃ))۴۷؎ ’’انساب کا علم سیکھو اور صلہ رحمی کیا کرو۔اللہ کی قسم!عنقریب آدمی اوراس کے بھائی کے دوران کوئی چیز حائل ہوجائے گی۔اگر وہ شخص جس کے درمیان اس میں خلل واقع ہوا ہے تو وہ شخص صلہ رحمی ختم کرنے سے دوسرے کو باز رہنے پر آمادہ کرے۔‘‘ 2۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں: ((لان اصل اخامن اخوانی بدرھم احب الی من اتصدق بعشرین درھما،ولان اصلہ بعشرین درھما احب الی من ان اتصدق بمائۃ درھم،ولا ن اصلہ بمائۃ درھم احب الی من ان اعتق رقبۃ)) ۴۸؎ ’’اپنے بھائیوں کو ایک درہم دینا کسی اور کو بیس درہم صدقہ کرنے سے زیادہ مجھے محبوب ہے اور اپنے عزیز و اقارب کوبیس درہم عطا کرنا مجھے زیادہ پسندیدہ ہیں اس سے کہ کسی اور کو سو درھم صدقہ کیا جائے اور سو درھم اپنے رشتہ داروں پر صرف کرنا،غلام آزاد کرنے سے زیادہ مجھے پسند اور محبوب ہیں۔‘‘ 3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں: ’’حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا۔جواللہ نے ان کو فدیے میں عطا کیا اور باغ فدک اور خیبر سے جوخمس ملا۔تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:((لا نورث ما ترکنا فھو صدقۃ))(انبیاء کا مال صدقہ ہوتاہے) محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا خاندان اس مال سے کھاتا ہے اور اس کے علاوہ ان کے لیے کوئی مال نہیں ہے۔اللہ کی قسم!میں صدقات کا اصراف اسی حالت میں دیکھنا چاہتا ہوں جو نظام عہد نبوی میں تھا۔اس بارے میں وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کیا ہے۔حضرت علی رضی اللہ عنہ نے گواہی دی پھر(حضرت علی رضی اللہ عنہ نے) فرمایا:اے ابوبکر رضی اللہ عنہ!میں نے آپ کی فضیلت کو جان لیا اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رشتہ داری کاذکر کیا اور ان کے حق کو تسلیم کیا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔((والذی نفسی بیدہ لقرابۃ رسول اللّٰہ!احب إلی ان اصل من قرابتی)) اس ذات کی قسم!جس کے قبضہ میں میری جان ہے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قرابت مجھے اپنے قرابت اور رشتہ داری سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘۴۹؎ 4۔ حضرت عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ((لدرھم اضعہ فی قرابتی أحب إلی من ألف اضعھا فی فاقۃ:قال لہ قائل یا أبا محمد،وإن کان قرابتی مثلی فی الغنی قال:وان کان اغنی منک)) ۵۰؎ ’’اپنے عزیز و اقارب کو ایک درہم دینا مجھے زیادہ محبوب ہے اس سے کہ میں ان کو قحط وفاقے کی حالت میں ہزار درہم عطا کروں۔کسی کہنے والے نے انہیں کہا۔اے ابومحمد!اگرچہ میرے رشتہ دار میری مثل خوشحالی کی زندگی بسر کررہے ہوں فرمایا:ہاں!اگرچہ میرے عزیز و اقارب آپ سے بڑھ کر غنی ہوں۔‘‘ 5۔ حضرت سعید بن المسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جب وہ فوت ہوئے تو انہوں نے دیناروں کاترکہ چھوڑا‘‘ ’’اللھم انک تعلم انی لم اجمعھا الا دینی وحسبی،لا