کتاب: اسلامی اجتماعیت میں خاندان کا کردار - صفحہ 312
اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے بے حیائی اور قطع رحمی اور فاسق و فاجر کی قسم سے جس قدر جلدی عذاب اور شہروں کی بربادی ہوتی ہے اس سے بڑھ کر اورکوئی چیز نہیں۔‘‘ 13۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((اسرع الخیر ثوابا البروالصلۃ الرحم و اسرع الشر عقوبۃ البغي و قطیعۃ الرحم)) ۴۲؎ ’’اعمال حسنہ میں سے صلہ رحمی کا ثواب جس قدر جلدی حاصل ہوتا ہے اس کے مقابلے میں کوئی نیک عمل نہیں ا ور بُرے اور قبیح اعمال میں سے سب سے جلدی جس چیز کا گناہ اور عتاب ملتا ہے وہ بے حیائی اور قطع رحمی ہے۔‘‘ 14۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((لیس الو اصل بالمکا فی ولکن الذی إذا قطعت رحمہ و صلھا)) ۴۳؎ ’’اس شخص کو صلہ رحمی کا مصداق نہیں خیال کیا جاسکتا جو رشتہ داروں کے ساتھ ان کا سا سلوک کرے۔اگر وہ اسے ملیں تو یہ بھی ملاقات کرے اور وہ ایسا نہ کریں تو یہ بھی ترک تعلق کردے بلکہ صلہ رحمی یہ ہے کہ اگر رشتہ دار اس سے تعلق منقطع کرنا چاہیں تو یہ اس تعلق کوبحال کرے۔‘‘ 15۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد پاک ہے۔ ((من سرہ أن یمدلہ فی عمرہ ویوسع لہ فی رزقہ و یدفع عنہ میتۃ السوء فلیتق اللّٰہ ولیصل رحمہ)) ۴۴؎ ’’جو شخص یہ بات پسند کرتا ہے کہ اس کی عمر میں اضافہ ہوجائے،اور اس کا رزق وافر ہوجائے اور وہ شخص بُری موت سے محفوظ ہوجائے پھر اسے چاہئے کہ وہ اللہ سے ڈر جائے اور صلہ رحمی کو اپنے دامن سے جدا نہ ہونے دے۔‘‘ 16۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((من کان یومن باللّٰه والیوم الآخر فلیکرم ضیفہ ومن کان یومن باللّٰه والیوم الآخر فلیصل رحمہ ومن کان یومن باللّٰه والیوم الآخر فلیقل خیرا أو لیصمت)) ۴۵؎ ’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور یوم قیامت پرایمان کاداعی ہے اسے چاہئے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت و توقیر اور میزبانی کو بجالائے اور جو شخص یوم آخرت پرایمان رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایمان پر قائل و فاعل ہے اسے چاہئے کہ وہ صلہ رحمی کو اپنا شعار بنائے اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور قیامت کے دن کو مانتاہے اسے چاہئے کہ وہ یا تو اچھی اور بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموشی کو اپنے دامن سے جُدا نہ ہونے دے۔‘‘ 17۔ حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی۔میں نے جلدی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ مبارک تھام لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عقبہ!کیا میں اہل دنیا اور آخرت والوں کے بلند اور بے مثال اخلاق کے بارے خبر نہ دوں؟(فرمایا)((تصل من قطعک و تعطی من حرمک و تعفو عمن ظلمک إلا ومن أراد أن یمدفی عمرہ و یبسط فی رزقہ فلیصل ذارحم))۴۶؎ ’’جو تجھ سے قطع تعلقی کرے تو اس سے صلہ کر اور جو تجھ سے کوئی چیز روکے تو اس کو دے اور جو شخص تجھ پر ظلم کرے تو اسے معاف کردے۔خبردار جو شخص یہ چاہتا ہے اس کی عمر لمبی ہوجائے اور اس کا رزق وسیع ہوجائے تو اسے چاہے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔‘‘